نقیب اللہ پولیس مقابلے میں راؤ انوار موقع پر موجود تھے: فرانزک تجزیاتی رپورٹ


کراچی: نقیب اللہ قتل کیس میں پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں راؤ انوار کے دعوؤں کا بھانڈا پھوٹ گیا۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے 13 جنوری کے روز شاہ لطیف ٹاؤن پولیس مقابلے میں دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جس میں نقیب اللہ کو بھی دہشت گرد بتا کر ہلاک کیا گیا تھا لیکن معاملہ میڈیا پر آنے اور تحقیقات شروع ہونے پر راؤ انوار نے مقابلے کے وقت جائے وقوعہ پر اپنی موجودگی سے انکار کردیا تھا۔

سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ نقیب اللہ کے پولیس مقابلے کے وقت وہ وہاں موجود نہیں تھے، یہ مقابلہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت نے کیا۔

تحقیقاتی رپورٹ

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نقیب کیس کی سماعت کےدوران آئی جی سندھ نے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناءاللہ کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں راؤ انوار کے دعوے کو شواہد کی بنیاد پر جھوٹا ثابت کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق راؤ انوار اور ان کے دیگر انتہائی قریبی ساتھیوں کے موبائل فون نمبرز کے فرانزک اور کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) کیے گئے جس میں ثابت ہوا ہےکہ مقابلے میں شامل پولیس اہلکار و افسران ہر وقت راؤ انوار کے ساتھ پائے گئے۔

راؤ انوار کے علاوہ 8 دست راست بھی ان کے ساتھ تھے: رپورٹ

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نقیب اللہ پولیس مقابلے کےوقت راؤ انوار سمیت 9 پولیس اہلکار موقع پر موجود تھے اور سی ڈی آر میں یہ بات ثابت ہوئی ہےکہ پولیس مقابلے کے دورانیے میں راؤ انوار کے علاوہ 8 دست راست بھی ان کے ساتھ تھے۔

رپورٹ کے مطابق موبائل فون فرانزک اور سی ڈی آر میں راؤ انوار کا ان افسران اور اہلکاروں سے لمحہ با لمحہ رابطہ ثابت ہوا اور یہ تمام افراد ہروقت ایک دوسرے کےساتھ پائے گئے۔

رپورٹ کے مطابق فرانزک تجزیئے سے ثابت ہوا ہےکہ اے ایس آئی خیر محمد، سب انسپکٹر محمد انار اور گدا حسین، راؤ انوار کے قریب ترین ساتھی ہیں جب کہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت اور ایس ایچ او سچل محمد شعیب بھی ان کے اعتماد والے افسران میں شامل ہیں۔

پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ میں سی ڈی آر کا عکس: اسکرین گریب جیونیوز

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہےکہ دو ہیڈ کانسٹیبل فیصل محمود، محسن عباس اور کانسٹیبل راجہ شمیم راؤ انوار کے انتہائی قریبی پائے گئے ہیں، یہ وہ افسران و اہلکار تھے جو کئی سالوں سے راؤ انوار کے دست راست ہیں اور ان کا آپس میں لمحہ بہ لمحہ رابطہ تھا۔

رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ نقیب اللہ کو تین جنوری کو حراست میں لیا گیا اور گرفتاری کے وقت نقیب اللہ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر تھا جب کہ اسے حراست میں لینے والے پولیس اہلکاروں کا سی ڈی آر بھی اسی علاقے سے ملا۔پولیس رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ محسود کے فون فرانزک نے بھی پولیس مقابلہ جعلی ثابت کردیا ہے۔

ڈیٹا ریکارڈ سے نقیب کے زیر حراست ہونے کی تصدیق ہوگئی: رپورٹ

رپورٹ کے مطابق  ڈیٹا ریکارڈ سے نقیب کے زیرحراست ہونے کی تصدیق ہوئی، نقیب اللہ کا موبائل فون 4 جنوری کو بند ہوا، اس کے زیر استعمال دو موبائل فون سے دہشت گردوں سے رابطوں کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

واضح رہے کہ راؤ انوار پولیس مقابلہ جعلی ثابت ہونے کے بعد سے روپوش ہیں جب کہ اس دوران انہوں نے اسلام آباد سے بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش کی جو ایف آئی اے نے ناکام بنائی۔

راؤ انوار کے بیرون ملک فرار ہونے کی خبر پر چیف جسٹس پاکستان نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا۔