پاکستان
Time 30 جنوری ، 2018

پولیس سے پوچھیں گے اگر گھر راؤ انوار کا نہیں تھا تو چھاپہ کیوں مارا، وزیر داخلہ سندھ


کراچی: صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے نقیب اللہ قتل کیس میں مطلوب ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی روپوشی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ راؤ انوار کو آخری بار اسلام آباد ایئرپورٹ میں دیکھا گیا تھا۔

جیو نیوز کے پروگرام ’’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سہیل انور سیال نے کہا کہ یہ تعجب کی بات ہے کہ راؤ انوار کے بیانات سامنے آرہے ہیں لیکن ان کا سراغ نہیں لگ رہا۔

اسلام آباد میں راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے مارے جانے والے چھاپے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پولیس سے پوچھا جائے گا کہ اگر وہ راؤ انوار کا گھر نہیں تھا تو کس کا تھا اور پولیس نے چھاپہ کیوں مارا اور پولیس کو کیا معلومات حاصل ہوئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے چھاپوں سے پولیس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔

وزیر داخلہ سندھ نے کہا کہ جو بھی شخص جعلی مقابلوں میں مارا گیا ہے اس کو انصاف ملنا چاہیے، کچھ اور مشکوک پولیس مقابلوں کی بھی تفصیلات آرہی ہیں جن کی تحقیقات کرائیں گے۔

سہیل انور سیال نے کہا کہ سندھ حکومت راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کررہی ہے، ہوم ڈپارٹمنٹ کو خط لکھ دیا گیا ہے کہ پولیس کے ساتھ تعاون کیا جائے۔

جب میزبان نے انہیں بتایا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق راؤ انوار اس وقت پاکستان میں ہی موجود ہیں تو انہیں کیوں نہیں گرفتار نہیں کیا جارہا تو وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال نے کہا کہ راؤ انوار کو گرفتار کرنا پولیس کا کام ہے۔

کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں کی جانب سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد کی ہلاکت کے معاملے پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے حوالے سے سہیل انور سیال نے کہا کہ اس معاملے میں جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے پولیس نے غلط طریقہ کار استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی ہمیشہ محکمہ داخلہ سے بنتی ہے، اب جے آئی ٹی کے لیے پولیس کی سمری موصول ہوئی ہے۔

راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے اسلام آباد میں چھاپہ

اسلام آباد میں پولیس نے نقیب اللہ محسود قتل کیس میں معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا ہے۔

جیو نیوز کے مطابق راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے اسلام آباد میں موجود کراچی پولیس کے اہلکاروں نے معطل ایس ایس پی ملیر کو حراست میں لینے کے لیے چھاپہ مارا۔

پولیس ذرائع کے مطابق اسلام آباد پولیس نے چھاپہ مارنے میں کراچی پولیس کی معاونت کی تاہم جس گھر پر چھاپہ مارا گیا وہ راؤ انوار کی ملکیت نہیں تھا اور نہ ہی اس گھر سے کسی کی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔

دوسری جانب راؤ انوار نے اسلام آباد میں اپنے گھر پر چھاپے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے میرے گھر پر کوئی چھاپہ نہیں مارا گیا۔

سابق ایس ایس پی نے کہا کہ اسلام آباد میں چھاپہ ایس ٹی 43 مکان نمبر 133 سیکٹر ایف 10 میں مارا گیا، جس مکان پرچھاپا مارا گیا وہ میرا نہیں ہے۔

نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟

رواں ماہ 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔

بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔

تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لے لیا۔

مزید خبریں :