پاکستان
Time 01 فروری ، 2018

فریال تالپور سینیٹ الیکشن میں حصہ نہیں لے رہیں، بلاول بھٹو


پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ فریال تالپور کے سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے کی بات جعلی خبر کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔

جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گتفگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ جھوٹی خبریں 21 ویں صدی کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور ہمیں اس پر قابو پانا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے جھوتی خبروں کا شکار رہی ہے، بے نظیر بھٹو سے متعلق بھی جعلی خبریں چلائی جاتی رہیں اور آصف زرداری سے متعلق ٹانگ پر بم باندھنے کی جعلی خبر بھی چلائی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں تو میمو گیٹ سے لے کر ججوں کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی جھوٹی خبریں بھی چلائی گئیں جس پر عدلیہ نے نوٹس بھی لیا۔

فریال تالپور کو سینیٹ کا ٹکٹ دینے کے حوالے سے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جھوٹی خبر کی اس سے بڑی مثال نہیں مل سکتی کہ فریال تالپور سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فریال تالپور سینیٹ کے الیکشن میں حصہ نہیں لے رہیں لیکن ہم انہیں صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑوانے کا سوچ رہے ہیں لیکن اس حوالے سے حتمی فیصلہ پارٹی نے کرنا ہے۔

ایک اینکر پرسن کی جانب سے جھوٹی خبر کے حوالے سے چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے فیصلہ تو ریاستی اداروں کو کرنا ہے کہ اگر اینکر کی خبر غلط ہے تو اسے کیا سزا ملنی چاہیے لیکن ہمیں لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانا ہو گا تاکہ انہیں پتہ ہو کہ خبر کیا ہے اور ذرائع کیا ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ عدلیہ نے اپنے فیصلوں کے ذریعے اور میڈیا نے خبروں کے ذریعے اپنی اہلیت کو منوانا ہے لیکن ہر ادارے میں کچھ برے لوگ ہوتے ہیں۔

نہال ہاشمی کو سپریم کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کیس میں سزا کے حوالے سے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ذاتی طور پر سیاستدانوں کے حوالے سے توہین عدالت اور سو موٹو نوٹس کے حق میں نہیں ہوں۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر عدالت نے نہال ہاشمی کو توہین عدالت پر سزا دی ہے تو پھر قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس آدمی کا کیا ہو گا جس نے ججز کو گرفتار کیا اور اس آدمی کا کیا ہو گا جس نے سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔

پروگرام کے میزبان حامد میر کی جانب سے جب پوچھا گیا کہ ’آپ نواز شریف اور پرویز مشرف کو ایک برابر ٹھہرا رہے ہیں‘، اس پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جی ہاں میں کہہ رہا ہوں کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔

تخت لاہور میں لڑائی کا فائدہ ہم سینیٹ الیکشن میں اٹھائیں گے، بلاول بھٹو

سینیٹ الیکشن کے حوالے سے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پنجاب میں دو بھائی ایک جلسے میں اکٹھے خطاب نہیں کر سکتے، تخت لاہور میں لڑائی کا فائدہ ہم سینیٹ الیکشن میں اٹھائیں گے جو ہمارا آئینی حق ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ہم ہر صوبے سے سینیٹ الیکشن کے لیے نمائندے اکٹھے کرنے کی کوشش کریں گے۔

رانا ثناء اللہ کی جانب سے آصف زرداری پر سینیٹرز کو خریدنے سے متعلق سوال پر بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پہلے بھی ہمارے ایم پی اے نہیں تھے لیکن پھر بھی ہم نے بلوچستان سے اپنے سینیٹرز منتخب کروائے۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے رانا ثناء اللہ کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ تخت لاہور کے خلاف بلوچستان میں بہت زیادہ غم و غصہ پایا جاتا ہے کیونکہ نواز شریف نے بلوچستان کو اپنی تشہیر کے طور پر استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب بلوچستان میں ہمارے ایم پی اے ہی نہیں ہیں تو کیسے ہاؤس ٹریڈنگ کر سکتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی بننے کے حوالے سے بلاول کا کہنا تھا کہ یہ لوگ اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے اس طرح کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کے حوالے سے چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا اپنی حکمت عملی میڈیا کے سامنے نہیں رکھنا چاہتا لیکن وہاں بھی پیپلز پارٹی کی اچھی پرفارمنس رہے گی۔

’پیپلز پارٹی نے صحت عامہ اور غربت کے خاتمے کیلیے بہت کام کیا‘ 

سندھ میں گورننس اور لاڑکانہ میں اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات کے حوالے سے چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ جب ہمارے سیاسی مخالفین جی ٹی روڈ پر چیخ رہے تھے تو پیپلز پارٹی خاموشی سے کام کر رہی تھی۔

سڑکوں کے حوالے سے تو آپ خود بھی شہباز شریف کو جواب دے سکتے ہیں کہ ہم نے وہاں کتنا کام کیا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے صحت عامہ کے شعبے پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے اور اس حوالے سے سندھ کا ریکارڈ پنجاب سے بھی بہتر ہے، بچوں کی اموات کے واقعات میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں دل کے امراض کا بہترین اسپتال بنایا جہاں مریضوں کا مہنگا ترین علاج بالکل مفت کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ سندھ کے ہر ضلعے میں دل کے اسپتال بنائیں گے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم نے غربت کے خاتمے کے لیے بہت کام کیا ہے اور بے نظیر اسکم سپورٹ پروگرام اس کی سب سے بڑی مثال ہے، غریب خواتین کے لیے بلا سود قرضوں کا انتظام کیا، 6 لاکھ خاندانوں کو قرضے دیے جنہوں نے اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور اس رقم کی واپسی کی شرح 97 فیصد ہے۔

دنیا کا کوئی بھی نظام انکاؤنٹرز کو جائز قرار نہیں دے سکتا، چیئرمین پیپلز پارٹی

خیبر پختونخوا پولیس کو تنقید کا نشانہ بنانے اور سندھ میں راؤ انوار کو سپورٹ کرنے کے حوالے سے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کسی بھی فرد کی سپورٹ نہیں کرتی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب یہ قتل نہیں ہوا تھا تو اس وقت بھی میں نے کہا تھا کہ میں پولیس میں ریفارمز ضروری ہیں اور انکاؤنٹرز کے حوالے سے مقابلوں کے بارے میں میرے تحفظات ہیں، یہ معاملات زیادہ دیر تک نہیں چلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کوئی بھی نظام انکاؤنٹر کی ٹھیک قرار نہیں دے سکتا۔

نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ سندھ حکومت نے باقی صوبوں کے مقابلے میں اس سے زیادہ عمل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی، قتل و غارت، اغوا برائے تاوان، مدارس ریفارمز کے حوالے سے دوسرے صوبوں سے زیادہ کام کیا ہے۔

’مشرف کو ہی والدہ کا قاتل سمجھتا ہوں‘

بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو ہی اپنی والدہ کا قاتل سمجھتا ہوں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت ان کا وصیت نامہ ہے جس میں سابق وزیراعظم نے بتایا تھا کہ انہیں پرویز مشرف سے خطرہ ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف آج تک یہ وضاحت نہیں کر سکے کہ انہوں نے بینظیر کی سیکیورٹی پر مامور پولیس کیوں ہٹائی اور کرائم سین کو کیوں دھویا گیا لیکن جب مشرف پر حملہ ہوا تو کرائم سین کو نہیں دھویا گیا۔

انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کو بھگوڑا قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھاگے اور ڈرے ہوئے ہیں، عدالتوں کا سامنا نہیں کر رہے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ انہوں نے جرم کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم جمہوری لوگ ہیں اور قانون کے مطابق چلتے ہیں، جمہوریت کو بچانا چاہتے تھے لیکن اس میں پیپلز پارٹی کا کیا قصور ہے کہ جب کیس میں 11 متربہ ججز کو ہی تبدیل کر دیا گیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ میری بڑی خواہش ہے کہ عدلیہ مجھے انصاف فراہم کرے، اگر عدلیہ سے انصاف ملے گا تو ہماری عدلیہ مضبوط ہو گی اور جمہوریت مضبوط ہو گی۔

نواز شریف عدلیہ پر تنقید اور عمران خان نفرت کی سیاست کرتے ہیں، بلاول

نواز شریف کی جانب سے عدلیہ پر تنقید کے حوالے سے چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ جوڈیشل ریفارمز ضروری ہیں لیکن جلسوں میں عدلیہ پر تنقید سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ ہمیں ایک ساتھ بیٹھ کر جوڈیشل ریفارمز پر کام کرنا ہو گا۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے حوالے سے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ وہ نوجوانوں کی باتیں کرتے ہیں اور 2002 میں بھی انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ مل کر ووٹ ڈالنے کی عمر 21 سال سے 18 سال کرنے کی بات کی لیکن اس کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ میں جمہوریت پسند سیاستدان ہوں جب کہ خان صاحب نفرت کی سیاست کرتے ہیں، ان کی سیاست کا شاید مختصر مدت میں تو فائدہ ہو لیکن مستقبل کے لیے یہ طریقہ نقصاندہ ہوگا۔

پیپلز پارٹی کے فیصلوں کے حوالے سے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ دوسری جمہوری پارٹیوں کی طرح ہم بھی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مشاورت سے فیصلے کرتے ہیں، سب مشورے دیتے ہیں اور مل کر فیصلہ کرتے ہیں، بعض اوقات میرے فیصلے مانے جاتے ہیں اور بعض اوقات مجھے دوسروں کے فیصلے ماننا پڑتے ہیں۔

کشمیر پالیسی پر تنقید

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی پالیسی کی طرح خارجہ پالیسی اور کشمیر پالیسی پر بھی موجودہ حکومت کا سب سے بڑا ناقد ہوں۔

نواز شریف نے کشمیر پالیسی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا، وہ مودی کی درخواست پر بھارت گئے لیکن حریت قیادت سے ملاقات نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ نے کشمیر پالیسی کو مکمل طور پر فیل کیا۔

مزید خبریں :