06 فروری ، 2018
اسلام آباد: پاناما اور بہاماس لیک کے بعد اب دبئی لیکس کا انکشاف ہوا ہے، جس کے مطابق 7 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں نے دبئی میں 11 سو ارب روپے سے زیادہ کی جائیدادیں بنارکھی ہیں جن میں سے 95 فی صد افراد نے پاکستان میں اپنے ٹیکس گوشواروں میں کچھ نہیں بتایا۔
دوسری جانب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف آئی آر) اور اسٹیٹ بینک کے پاس اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں کہ یہ پیسہ پاکستان سے دبئی کیسے گیا۔
جیو نیوز کے پروگرام 'آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ' کی خصوصی تحقیق کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ دبئی میں جائیدادیں بنانے والوں میں سیاست دان، اداکار، وکلا، ڈاکٹر، بیوروکریٹ، کاروباری شخصیات اور بینکر بھی شامل ہیں۔
جیو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق گذشتہ کچھ سالوں میں 11 سو ارب روپے سے زائد رقم خاموشی سے پاکستان سے دبئی منتقل کردی گئی جبکہ متعلقہ اداروں کے علم میں لائے بغیر پیسوں کی منتقلی غیر قانونی اور مشکوک ہے۔
دستاویزات کے مطابق تقریباً 7 ہزار پاکستانیوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دبئی میں جائیدادیں خریدیں، جن میں سیاست دان، اداکار، وکلا، ڈاکٹرز، بیوروکریٹس، کاروباری حضرات اور بینکرز کے علاوہ چند میڈیا مالکان، ریٹائرڈ جرنیلز اور ریٹائرڈ ججز بھی شامل ہیں۔
'آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ' کی تحقیقات کے مطابق 2002 سے اب تک 5 ہزار پاکستانیوں نے دبئی میں اپنے نام سے جائیدادیں خریدیں جبکہ 2 ہزار پاکستانیوں نے اپنے فرنٹ مین کے نام پر یہ جائیدادیں لیں۔
تحقیقات کے مطابق اس مجموعی تعداد میں سے تقریباََ 780 پاکستانی دہری شہریت رکھتے ہیں یا پھر وہ پاکستان سے باہر مقیم ہیں جبکہ باقی 6 ہزار سے زائد پاکستان میں ہی رہتے ہیں۔
تحقیقات کے مطابق پاکستانیوں نے تقریباََ 967 ولاز یا رہائشی عمارتیں گرینز کے علاقے میں خریدیں، پاکستانیوں کے 75 قیمتی ترین فلیٹس ایمریٹس ہلز، 165 جائیدادیں ڈسکوری گارڈنز میں، 167 فلیٹس جمیرا آئی لینڈ، 123 گھر جمیرا پارک، 245 فلیٹس جمیرا ولیج، 10 جائیدادیں پام ڈیرا، 160 پام جبل علی، 25 جائیدادیں پام جمیرا شور لائن، 234 جائیدادیں انٹرنیشنل سٹی اور 230جائیدادیں سلیکون ویلی میں ہیں۔
جیو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق دبئی کی ان جائیدادوں کی مالیت کم از کم 10 لاکھ درہم سے شروع ہوکر ڈیڑھ کروڑ درہم تک ہیں، جن کی مالیت 3 کروڑ پاکستانی روپے سے لے کر 45 کروڑ روپے تک بنتی ہے۔
متعلقہ ادارے لاعلم
تحقیقات کے مطابق فیڈل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے 17 اگست 2015 کو دبئی میں پاکستانی ہائی کمیشن اور دبئی کی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا اور دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کےحوالے سے تفصیلات طلب کیں، لیکن اب تک انہیں بھی کوئی جواب نہیں ملا۔
اس حوالے سے اسٹیٹ بینک نے 23 ستمبر 2015 کو ایف آئی اے کو جواب دیا اور آگاہ کیا کہ 1990کے بعد کسی بھی پاکستانی نے منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے متعلق آگاہ نہیں کیا۔
دوسری جانب ایف بی آر کا کہنا ہے کہ 95 فیصد پاکستانیوں نے اپنے ٹیکس ریٹرنز میں دبئی کی جائیدادوں کو ظاہر نہیں کیا۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تقریباً 2 درجن اراکین پارلیمنٹ کی بھی دبئی میں جائیدادیں ہیں اور بعض حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بھی تحقیقات آگے نہیں بڑھ سکیں۔
ذرائع نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ دبئی میں جائیدادیں خریدنے کے لیے کھربوں روپے کی رقم کا بڑا حصہ حوالہ ہنڈی کے ذریعے ملک سے باہر بھیجا گیا۔
واضح رہے کہ دبئی میں جائیدادیں بنانے والوں میں پاکستانی تیسرے نمبر پر ہیں اور پاکستانیوں نے اس معاملے میں امریکا، برطانیہ اور دیگر امیر ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، صرف مقامی افراد اور بھارتی پاکستان سے آگے ہیں۔