پاکستان
Time 07 فروری ، 2018

ایگزیکٹ ڈگری اسکینڈل: سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایف آئی اے رپورٹ تضادات سے بھرپور

ڈگری اسکینڈل میں ملوث ایگزیکٹ کا پول سب سے پہلے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے کھولا تھا—۔فائل فوٹو

اسلام آباد: جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ملوث بدنام زمانہ کمپنی ایگزیکٹ کے بارے میں جو رپورٹ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی وہ تضادات کا نمونہ نظر آئی،  جس نے شفاف تحقیقات پر کئی سوال کھڑے کردیئے۔

ڈگری اسکینڈل میں ملوث ایگزیکٹ کا پول سب سے پہلے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے کھولا تھا، پھر برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سمیت کئی عالمی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں نے بھونچال کھڑا کردیا۔

جس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ان خبروں پر ازخود نوٹس لے کر ایف آئی اے کو تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا، تاہم ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں بہت سے تضادات نظر آئے۔

رپورٹ میں نہ صرف ایگزیکٹ کے بارے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی رپورٹس کو غائب کردیا گیا بلکہ یہ غلط بیانی بھی کی گئی کہ ایگزیکٹ کے عہدے داروں کے بارے میں امریکی سفارت خانے کو لکھے گئے خط کا بھی جواب نہیں ملا۔

ایف آئی  اے نے یہ تو بتا دیا کہ چار ہزار متاثرین سے ای میل کے ذریعے رابطہ کیا گیا لیکن ان آڈیو ریکارڈنگز کو اپنی رپورٹ میں شامل نہ کیا جو ایگزیکٹ کی بھتہ خوری اور ڈگری خریدنے والوں سے رقم اینٹھنے کا ثبوت تھیں۔

اپنی رپورٹ میں ایف آئی اے نے تسلیم کیا تھا کہ ایگزیکٹ کے جعلی ڈگری اسکینڈل نے عالمی برادری میں پاکستان کو بدنام کیا اور کمپنی نے پاکستان سمیت مختلف ملکوں کے 2 لاکھ 15 ہزار 507  طالب علموں کو جعلی  ڈگریاں اور سرٹیفکیٹ بیچے، لیکن جو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی اس میں جان بوجھ کر یا تو شواہد کو نظر انداز کیا گیا یا پھر چھپایا گیا اور حقائق کو توڑ مروڑ کر ملزمان کو بچ نکلنے کا راستہ فراہم کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی سفارت خانے کے لیگل اتاشی کو ایک خط میں ایگزٹ کے شئیر ہولڈرز اور ڈائریکٹرز سمیت افسران کی معلومات مانگی گئیں، لیکن امریکی حکومت کی جانب سے اس خط کا کوئی جواب نہیں آیا۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکی سفارت خانے کے لیگل اتاشی کی جانب سے 8 فروری 2016 کو لکھے گئے خط میں ایگزٹ سے منسلک کمپنیز اور تمام سوالوں کے تفصیل سے جواب دیئے گئے تھے۔

ایف آئی اے کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ جعلی ڈگریوں کی تصدیق کے لیے  4 ہزار طالب علموں سے ای میل کے ذریعے رابطہ کیا گیا، ان میں سے صرف 7 لوگوں نے جواب دیا اور ایک کا بھی جواب ایسا نہیں تھا جو جعلی ڈگریوں کی تصدیق کرسکے، لیکن رپورٹ میں شامل یہ نکتہ اس حقیقت کی نفی کرتا ہے جس میں خود ایف آئی اے نے تسلیم کیا تھا کہ اس کی معلومات تحقیقات کے دوران ایگزیکٹ کی عمارت سے ملنے والی آڈیو ریکارڈنگز پر مشتمل ہیں، لیکن ایف آئی اے نے بیرون ملک ایگزیکٹ کے جھانسے میں آنے والوں سے ذاتی طور پر معلومات حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔

ایف آئی  اے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ایگزٹ ٹیکس دہندہ ہے اور اس کا تمام کاروبار قواعدوضوابط کے دائرہ کار میں ہے، لیکن حیران کن طور پر رپورٹ میں ایف بی آر کی جون 2014 کی رپورٹ کا ذکر نہیں کیا گیا جس کے مطابق 2013 میں ایگزیکٹ کے ڈائریکٹرز کی جانب سے جمع کرائے گئے  ٹیکس ریٹرنز نامکمل تھے،جس سے ان شبہات کو تقویت ملتی ہے کہ ایگزیکٹ کی جانب سے ظاہر کی جانے والی آمدنی اور ڈائریکٹرز کے ٹیکس ریٹرنز مطابقت نہیں رکھتے۔

ایف آئی   اے کی رپورٹ میں امریکا میں ایگزٹ کے خلاف چلنے والے مقدمات کا تذکرہ بھی نہیں کیا گیا، ایک مقدمے میں امریکا میں ایگزٹ کے ایک ملازم کو منی لانڈرنگ اور جعلی ڈگریاں بیچنے کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا ہے، دوسرا کیس نام نہاد بیل فورڈ یونی ورسٹی کا تھا، جو ایگزیکٹ امریکی عدالت میں ہار گئی تھی، ان دونوں مقدمات کی تفصیل امریکی محکمہ انصاف کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔

ایف آئی اے عدالت میں ایگزٹ کے بڑے منی لانڈرنگ کیس کی تفصیلات بھی سپریم کورٹ میں پیش کرنے میں ناکام رہی جس میں حوالہ اور دوسرے غیر قانونی ذرائع سے پیسہ پاکستان سے باہر اور باہر سے پاکستان منتقل کیا گیا۔

جعلی ڈگری کیس

دنیا بھر میں جعلی ڈگری کا کاروبار کرنے والی کمپنی ایگزیکٹ کا انکشاف 18 مئی 2015 کو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے کیا تھا۔

ایگزکٹ کا جعلی ڈگریوں کا اسکینڈل دنیا بھر میں پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث بنا کیونکہ ایگزیکٹ جعلی ڈگری، پیسے چھاپنے اور لوگوں کو بلیک میل کرنے کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا چکی تھی۔

کمپنی کا اسکینڈل سامنے آنے پر حکومت، ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں نے مل کر بھرپور کارروائی کی اور کمپنی کے مالک شعیب شیخ، وقاص عتیق سمیت جعلی ڈگری کا دھندا کرنے والے کئی افراد حراست میں لے لیے گئے۔

عالمی جریدوں اور ٹی وی چینلز نے اس معاملے پر کڑی تنقید کی جبکہ امریکا میں فرنٹ مین پکڑا گیا جسے اعتراف جرم اور بھانڈا پھوڑنے کے بعد سزا ہوئی۔

جعلی ڈگری اسکینڈل کے خلاف پاکستان میں کراچی اور اسلام آباد میں مقدمات درج ہوئے، کارروائیاں تیز کی گئیں مگر پھر کارروائی کی راہ میں چند پراسرار موڑ آئے اور معاملہ خفیہ قانونی پیچیدگیوں کا شکار ہوگیا۔

بعدازاں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے بھی ایگزیکٹ جعلی ڈگری اسکینڈل پر ازخود نوٹس لے لیا۔


مزید خبریں :