ریویو: فلم ’پری‘

— فوٹو: فلم تشہیری پوسٹر

اس فلم ریویو کے دوران کہیں پر فلم کی کہانی کے کچھ ایسے پہلو سامنے آسکتے ہیں جس سے فلم دیکھنے جانے والوں کا مزا تھوڑا سا کرکرا ہوسکتا ہے لیکن اس تحریر میں اس بات کی پوری کوشش کی جائے گی کہ ایسا نہ ہو یا کہانی کے کم سے کم رازوں سے پردہ اٹھایا جائے۔

ہر کام کی طرح فلم بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں چاہے فلم ایکشن ہو یا رومانوی خوب پیسہ بھی لگتا ہے اور محنت بھی، اوپر سے اگر فلم کامیڈی یا ہارر یعنی ڈراؤنی فلم ہو تو محنت اور زیادہ لگتی ہے۔

ہارر فلم میں اکثر مناظر بھی ایسے ہوتے ہیں کہ زیادہ تر فلمیں صرف بڑوں کیلئے ہوتی ہیں یعنی محنت زیادہ اور دیکھنے والے کم۔ پھر ہالی وڈ کی طرح پاکستان یہاں تک کے بالی وڈ میں بھی ہارر فلموں کا بزنس بہت محدود ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ لاگت زیادہ منافع کا چانس کم۔

ہارر فلموں کے بنانے میں میک اپ، ویژول، ساؤنڈ اور اسپیشل ایفکٹس کے ساتھ ساتھ میں ٹیکنیکل ضرورتیں بھی بڑھ جاتی ہیں ورنہ ہارر دیکھنے والوں کیلئے کامیڈی فلم بن جاتی ہے اور لوگ سینما میں فلم دیکھتے ہوئے بجائے ڈرنے کے قہقہے لگارہے ہوتے ہیں۔

فلم ’پری‘ کی اسٹار کاسٹ — فوٹو: فیس بک 

حال ہی میں ریلیز ہونی والی پاکستانی فلم ’پری‘ میں کچھ کمزوریاں اپنی جگہ لیکن اس فلم کے مثبت پہلو بھی کچھ کم نہیں۔

پری میں نہ تو کوئی سپر اسٹار ہے نہ ہی اس فلم کی پروموشن بڑے پیمانے پر ہوئی پھر بھی اس فلم نے نسبتاََ کم شوز کے باوجود اپنے سے بڑی مہنگی کمرشل فلم ’مان جاؤ نہ‘ کا جم کر مقابلہ کیا لیکن دونوں پہلے ہفتے کے بزنس میں اینمیٹڈ فلم سے کافی پیچھے رہی کیونکہ ’اللہ یار اینڈ دی لیجنڈ آف مار خور‘ کی پروڈکشن بھی بڑی تھی اور پروموشن اور شوز کے ساتھ معیار بھی ’ڈبل‘ تھا۔

پری کہانی ہے ایک چھوٹے سے خاندان کی جو شہروں سے دور پہاڑیوں پر ایک پرانے بنگلے میں رہائش اختیار کرتا ہے۔ پری کے والد کو سائنس اور ماں کے کردار کو مذہب کے قریب دکھایا گیا ہے۔ 

فلم میں استعمال ہونے والا بنگلہ — فوٹو: بشکریہ فیس بک 

اس بنگلے میں رہائش کے بعد ہی اچانک اس خاندان کا سامنا غیر مرئی قوتوں سے ہوتا ہے۔ یہ قوتیں کون ہیں؟ اس خاندان کو تنگ کیوں کرتی ہیں؟ یہ خاندان شہر چھوڑ کر پہاڑیوں پر کیوں جاتا ہے ؟ پری کا ان قوتوں سے تعلق؟پری ان سے کیوں نہیں ڈرتی؟اور اس خاندان کا تاریک ماضی کیا ہے؟ اس بنگلے کا مالک کون ہے؟ اینڈ میں کیا ہوتا ہے؟ یہ سب آپ فلم دیکھنے کے بعد ہی جان سکے گے۔

فلم کا پہلا سین ہی فلم دیکھنے والوں کو جکڑ لیتا ہے لیکن پھر فلم اور کہانی سست ہونے کی وجہ سے یہ گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے پھر آخر کے 30 منٹ میں فلم بین کو متوجہ کرتی ہے۔

فلم میں چونکا دینے والے اور ڈرانے والے مناظر اور ساؤنڈ ایفٹکس ہیں لیکن یہ بہت فاصلے یا دیر سے اور کم جگہ استعمال ہوئے لیکن جہاں ہیں اور جس طرح ہیں وہ بہت موثر ہیں۔ 

فلم کی ساؤنڈ کوالٹی اور بیک گراؤنڈ میوزک بہت عمدہ ہے اور گانے بھی اچھے ہیں لیکن یہ گانے پروموٹ زیادہ نہیں ہوئے، فلم کی عکاسی بھی کہانی کو ساتھ لے کر چلتی ہے جب کہ فلم کے مرکزی کردار نئے اداکاروں نے ادا کیے۔

عزیکا ڈینئل کا سین فلماتے ہوئے — فوٹو: فیس بک

عزیکا ڈینیئل اسکرین پر خوبصورت بھی لگی اور ان کے تاثرات بھی زبردست تھے لیکن ان کو ڈائیلاگ ڈلیوری پر خوب محنت کرنی ہوگی۔ جنید اختر کی کریکٹر ائزیشن، ان کا چشمہ ان کے بالوں کا اسٹائل پرانے زمانے کے پروفیسرز کا دکھایا گیا۔

جنید اختر نے بھی پہلی فلم کے حساب سے اداکاری اچھی کی لیکن ان کو امپروائزشن پر کافی محنت کی ضرورت ہے مثلا کھدائی کرتے ہوئے ان کی قوت اور بے بسی دونوں دیکھنے والوں کو نظر آنی چاہیے تھی۔

سلیم معراج بڑے اداکار ہیں انھیں جتنا موقع ملے جیسا کردار ملے وہ اس کردار میں اپنی جان ڈال کر اپنی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں۔

قوی خان اور رشید ناز کے کردار اسپیشل اپیئرنس ہیں، اس فلم کا مرکزی کردار پری سب سے مشکل کردار تھا جسے چھوٹی سی پری نے اپنی اداکاری سے بڑا کردیا۔ اس کردار سے نفرت کریں یا ہمددردی اس کا فیصلہ فلم بینوں کیلئے کافی مشکل ہوگا۔

لیجنڈری اداکار قوی خان کا ایک منظر — فوٹو: بشکریہ فلم آفیشل پیج

فلم کے ہدایتکار سید عاطف علی نے اپنے لیے پہلا امتحان ہی مشکل چنا اس کے باوجود فلم کے بیشتر ڈیپارٹمنٹ ان کے کنٹرول میں نظر آئے۔ فلم کے اسکرین پلے اور کہانی میں بھی کچھ جھول تھے لیکن یہ ایڈیٹنگ تھی جس پر اور محنت کی جاتی تو کافی بہتر”فنشنگ “سامنے آتی۔

فلم کے سین بہت لمبے اور سست تھے، فلم آرام سے تیس منٹ تک کم کی جاسکتی تھی اور بار بار گھر اور جنگل کو ”اسٹیبلش“ کرنا بھی فلم کی رفتار کو کم کر رہا تھا۔ جنید اور عزیکا کا شادی سے پہلے کا فلیش بیک مکمل ہی اڑ جاتا تو بھی شاید فرق نہیں پڑتا۔

پری کے متوازی بنگلے کی کہانی کا اینگل اچھا تھا لیکن اس میں تشنگی کافی رہی، جنگل میں بیٹھے کوے کی آنکھ کا کلوز اپ اگر واقعی کوے کا ہی ہے تو زبردست ہے لیکن اس آنکھ میں دکھائی دینے والا پری کا عکس بھی دیکھنے والوں کیلئے ’رجسٹر‘ نہیں ہوسکا۔ ’سب ٹائٹل‘ میں کافی زیادہ مسائل تھے” ڈس کلیمر“ پر اور کام کرنا چاہیے تھا۔

فلم کی عکاسی اور ساؤنڈ ایفکٹس بہت موزوں اور موثر تھے عموماً ڈراؤنی فلموں میں اندھیرا بہت ہوتا ہے لیکن یہاں ”لائٹنگ“ کا بہت اچھا استعمال کیا گیا، ہر سین بہت واضح تھا، خوفناک اور ڈرانے والے مناظر بہت کم لیکن یاد رہ جانے والے ہیں۔

فلم میں لائٹنگ اور ایفیکٹس کا استعمال کرتے ہوئے منظر — فوٹو: فیس بک اکاؤنٹ

جنید اور پری کا بازار سے گھر آنے کا سین جب عزیکا انھیں دیکھ کر چونک جاتی ہے، پری کی تصویر بنانے کا سین، پری کا درخت کے پاس جانے کا منظر، پری کی خاموشی کے تاثرات اور سب سے بڑ ھ کر عزیکا کے چہرے کی وحشت بہت اچھی طرح فلمائے گئے ہیں۔

فلم میں اسپتال میں تصویروں کا سین ’ماسٹر اسٹروک‘ ہے، کوئی کچھ بھی کہے اگر یہ سین جان بوجھ کر تخلیق کیا گیا ہے تو شاباش ہے فلم بنانے والوں کی دلیری پر کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس ایک سین کی وجہ سے فلم سوشل میڈیا پر ’ڈسکس‘ ہونگے اور وہ اس کوشش میں کامیاب رہے۔

ہالی وڈ کو چھوڑ کراگر کسی آخری کامیاب ہارر فلم کی بات ہو تو سب کو ’راگنی ایم ایم ایس 2‘ یاد آئے گی لیکن یہ فلم چار سال پہلے ریلیز ہوئی اور اس فلم کی کامیابی کیلئے بھی ”بے بی ڈول“ سنی لیونی کی ضرورت پڑی تھی۔

سید عاطف علی نے اس فلم میں کسی آئٹم سانگ یا ”صرف بالغان کیلئے“ مناظر یا لطیفوں کا سہارا نہیں لیا لیکن انھیں فلم کے ٹریلر کی طرح فلم کو بھی ’شارپ‘ رکھنا چاہیے تھا۔ فلم کا ٹریلر بھی کافی مقبول ہوا اور اب تک اس فلم کے ٹریلر کو صرف یو ٹیوب پر 15 لاکھ سے زیادہ بار دیکھا جاچکا ہے۔ شاید ان ’ہٹس‘ میں دوسری ’پری‘ کا بھی ہاتھ ہو جو بالی وڈ میں مارچ میں ریلیز ہورہی ہے۔

نوٹ :

1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا، اُس فلم کیلئے کام کرنے والا فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے۔

2۔۔ ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے، فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزہ سینما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔

3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے ،جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔

4۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔

مزید خبریں :