10 فروری ، 2018
کراچی: 'انکاؤنٹر اسپیشلسٹ' کے نام سے پہچانے جانے والے سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کے ایک اور پولیس مقابلے کے جعلی ہونے کے حوالے سے تحقیقات شروع کردی گئیں۔
مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے جنید ابڑو کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ جنید کو گذشتہ برس 25 دسمبر کو نیو کراچی سے پکڑا گیا اور اگلے روز مقابلے میں مار دیا گیا۔
اہلخانہ کے مطابق ایمبولینس کے ڈرائیور نے زخمی جنید کی تصویر بنائی اور سائٹ سپرہائی وے تھانے کے ڈیوٹی افسر سے علاج کا لیٹر مانگا، کچھ دیر میں فائرنگ ہوئی اور پولیس اہلکار نے کہا کہ وہ جنید کی لاش لے جائے۔
عدالتی حکم پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ اے ڈی خواجہ نے مبینہ پولیس مقابلے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے سی ٹی ڈی کے ایس پی پرویز چانڈیو کو تحقیقاتی افسر مقرر کردیا جبکہ فریقین کو پیر (12 فروری) کو طلب کرلیا۔
واضح رہے کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اِن دنوں نقیب اللہ قتل کیس میں پولیس کو مطلوب ہیں۔
گذشتہ ماہ 13 جنوری کو راؤ انوار نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا، جن میں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا۔
بعدازاں نقیب اللہ محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
بعدازاں آئی جی سندھ کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دے کر راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیا اور انہیں عہدے سے معطل کرنے کی سفارش کی، جس کے بعد راؤ انوار کو عہدے سے ہٹا کر ان کا نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا اور یکم فروری کو سماعت کے دوران آئی جی سندھ کو راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے 10 دن کی مہلت دی اور ساتھ ہی حساس اداروں کو بھی اے ڈی خواجہ کی معاونت کی ہدایت دی۔