02 مارچ ، 2018
ایوانِ بالا میں کسی بھی جماعت کو فیصلہ کن برتری کے لیے زیادہ سے زیادہ نشستوں کا حصول لازمی ہے تاہم سینیٹ میں سیاسی جماعتوں کے اراکین کی تعداد دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ ایوان میں کوئی بھی جماعت تنہا واضح اکثریت کی بنیاد پر چیئرمین منتخب کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اسلام آباد اور فاٹا کی بات کی جائے تو ان نشستوں کا الیکٹورل کالج یا حلقہ انتخاب قومی اسمبلی ہوتا ہے،11 مارچ کو اسلام آباد کی دو نشستیں خالی ہو رہی ہیں جس میں جنرل نشست پاکستان پیپلز پارٹی کے عثمان سیف اللہ جبکہ ٹیکنوکریٹ کی نشست مسلم لیگ ق کے مشاہد حسین سید کے پاس ہے۔
اس نشست پر جوڑ توڑ انتہائی مشکل یا نا ممکن ہوگی کیوں کہ کسی بھی امیدوار کو جیت کے لیے قومی اسمبلی کے آدھے اراکین یعنی 171 کی حمایت حاصل کرنا ہوگی، لیکن ان نشستوں پر مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی کامیابی یقینی ہے۔
ایوان زیریں کے 342 اراکین میں سے 188 مسلم لیگ ن کے ہیں اس لیے یہ باآسانی کہا جاسکتا ہے کے سینیٹ کی جنرل اور ٹیکنوکریٹس کی نشست پر مسلم لیگ ن کے نمائندے آسانی سے کامیاب ہوجائیں گے۔
سینیٹ میں فاٹا کے 8 میں سے 4 نئے اراکین کا انتخاب کیا جائے گا، فاٹا کی 4 جنرل نشستوں کو پُر کرنے کی ذمہ داری قومی اسمبلی میں موجود فاٹا اراکین کی ہے۔
فاٹا کے قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 12 ہے تاہم ایک حلقے میں امن امان کی صورتحال کے پیش نظر انتخاب نہیں ہوا تھا اس لیے فاٹا کے 11 اراکین 4 نئے سینیٹرز کو منتخب کریں گے۔
فاٹا میں جوڑ توڑ یا سادے الفاظ میں پیسے کی خوب چکا چوند دیکھنے کو ملے گی یعنی ایک امیدوار کو فاٹا کے صرف 3 اراکین کی حمایت درکار ہو گی اور جو کسی طرح ان 3 اراکین کو رام کرنے میں کامیاب ہو جائے گا وہ چھ سال کے لیے سینیٹر منتخب ہوجائے گا۔
تو پیسہ پھینک اور تماشہ دیکھ!