14 فروری ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آفس سے 14ویں ترمیم کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی۔
عدالت نے 1997 میں ہونے والی 14ویں ترمیم کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آفس کو حکم دیا کہ 14ویں ترمیم کے وقت دونوں ہاؤسز کی پارلیمنٹری بحث عدالت میں پیش کریں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی 'یہ بھی بتانا ہے کہ 14ویں ترمیم کے وقت کون حکومت میں تھا، ترمیم کتنے وقت میں پاس ہوئی اور اس میں کیا بحث ہوئی، اس حوالے سے تمام ریکارڈ پیش کیا جائے'۔
سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کے وکیل سلمان اکرم راجا نے پارٹی سربراہی کی اہلیت سے متعلق دلائل دیے۔
سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 19 اور 17 پارٹی ممبرز کو لیڈر کے چناؤ کی آزادی دیتے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا چوری کرتے پکڑا گیا شخص بھی پارٹی سربراہ ہو سکتا ہے' جس پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ جراب چوری کرنے والا بھی پارٹی سربراہ بن سکتا ہے، سربراہ کا انتخاب پارٹی کی صوابدید ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارٹی سربراہ کا کردار اہم ہوتا ہے، پارٹی سربراہ براہ راست گورننس پر بھی اثر انداز ہوتا ہے جس پر وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پارلیمنٹ کے باہر بیٹھا شخص کوئی ہدایات نہیں دے سکتا اور پارلیمانی پارٹی سیاسی جماعت کے آئین کی پابند نہیں ہوتی۔
مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ آئین کی خلاف ورزی کرنے والا رکن اسمبلی ہی پارلیمانی پارٹی کے کہنے پر نااہل ہوگا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی بھی تو پارٹی سربراہ ہی بناتا ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو ہدایات پارلیمانی پارٹی دیتی ہے سربراہ نہیں جب کہ آئین میں نااہلی کے حوالے سے عام طریقہ کار درج ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سربراہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارش کا پابند نہیں ہوتا اور اصل فیصلہ تو سربراہ نے ہی کرنا ہوتا ہے جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی سیاسی جماعت کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعت سربراہ کے گرد گھومتی ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو کنٹرول کرتا ہے جس پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل نے کہا کہ پارٹی سربراہ کسی رکن کو براہ راست نااہل نہیں کرسکتا اور الیکشن کمیشن نے نااہلی کے معاملے کا جائزہ میرٹ پر لینا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ دیکھنا ہے پارٹی ٹکٹ کون جاری کرتا ہے اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن سے ریکارڈ منگوایا ہے، دیکھنا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں ٹکٹ کس نے جاری کیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر یہ ڈکلئیریشن ہوجاتا ہے کہ نواز شریف پارٹی سربراہ نہیں رہے تو جو سینیٹ کے ٹکٹ دیے ان کا کیا ہوگا اور کیا ڈکلئیریشن کی صورت میں واک اوور ہوگا۔
عدالت نے نمائندہ الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ کے لئے امیدواروں کے پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کا فارم ہمیں لاکر دکھائیں۔
انتخابی اصلاحات ایکٹ کی سماعت میں مسلم لیگ (ن) کے وکیل کے دلائل کے بعد عدالت نے مزید سماعت کل تک کے لئے ملتوی کردی۔