کیا مشال مرتے رہیں گے؟

کافی عرصے سے ذہن میں کالم لکھنے کے لیے کسی موضوع کی آمد نہیں ہورہی تھی اس کی وجہ میری اپنی ذات تک ہی ہے، میں نے کئی کالم ادھورے لکھ کرپھاڑ دیئے کیوں کہ میرا خیال تھا کہ یہ ’’ بے مقصد ‘‘ کہے جا سکتے ہیں۔

لیکن اب جب یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو بھی ایک خوف طاری ہے اس لیے ایسے دوستوں سے پیشگی معذرت جو خود ہی فتویٰ جاری کرتے ہیں اور کسی بے قصور کو قتل بھی کردیتے ہیں۔

ایسے افراد اپنی مذہبی وابستگی کواپنے دلوں کے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا میں یہ ابتدا ہی میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کالم ان کے لئے نہیں ہے۔ ایک اور وضاحت بھی کردوں کہ میرا یہ کالم مشال قتل کیس کے مذہبی پہلو سے ہٹ کر قانون، اخلاقیات اورانتظامی معاملات سے متعلق ہے۔

میرے مطابق کسی بھی بات کی بنیاد کسی واقعے یا یوں کہوں کہ حقیقت پرہونی چاہیے۔ تو یاد دہانی کی خاطرعرض کروں کہ گزشتہ سال 17اپریل کو خیبرپختونخوا کے ضلع مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبہ اورملازمین کے مشتعل ہجوم نے شعبہ صحافت کے طالب علم مشال خان کو شدید ترین تشدد کے بعد قتل کردیا۔

مشال پرالزام لگایا گیا کہ اس نے سوشل میڈیا پر توہین مذہب پرمبنی مواد ڈالا تھا۔ مشال خان کے بہیمانہ قتل کے بعد خیبر پختونخوا پولیس نے الزامات کا جائزہ لیا۔ پولیس کی ابتدائی تحقیقات میں مشال خان پر لگائے جانے والے الزامات کو غلط قراردیا۔ یوں مشال خان کو بعدازمرگ ان الزامات سے بری کردیا گیا جن کو بنیاد بنا کراسے دن دھاڑے، سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں قتل کردیا گیا تھا۔

مشال خان کے قتل کے واقعے کے وقت بنائی گئی فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح اور کن لوگوں کے بھڑکا نے پر اسے قتل کیا گیا۔ اسی وڈیو کی بنیاد پر قتل کی اس واردات میں مبینہ طور پر ملوث 58 افراد گرفتارہوئے۔ یہ واقعہ مردان میں پیش آیا اور مشال خان کے والد کا کہنا تھا کہ ان کو کیس سے دستبرداری کے لیے دھمکیاں دی جارہی ہیں لہٰذا ان کی درخواست پرکیس کا ٹرائل ہزارہ منتقل کردیا گیا اور ہری پور جیل میں قائم انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کیس چلایا گیا۔

دس ماہ بعد مشال خان قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا جس میں ایک مجرم کو سزائے موت اورپانچ کو عمر قید، 25 کو چارچارسال قید کی سزا ہوئی جب کہ جرم ثابت نہ ہونے پر 26 ملزمان کو بری کردیا گیا۔

جس کے بعد مشال کے بھائی ایمل خان نے بری کیے جانے والوں کے خلاف پشاورہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔

میرے خیال میں مشال خان قتل کیس میں چند افراد کو مجرم قراردیتے ہوئے سزا دے کر کہیں خوشی کہیں غم والا ماحول بنایا گیا ہے۔ جب کہ اس فیصلے کی آڑ میں قتل کے "اصل مجرمان" کو صاف بچالیا گیا ہے۔ اس طرح دیگر کئی کیسز کی طرح حکومتوں اور مختلف اداروں نے کسی "مٹی پاو" کیس کی طرح اس مقدمے سے بھی جان چھڑانے کی کوشش کی اوربنیادی وجوہات اور حقائق سے پردہ اٹھائے بغیرہی اس گھناؤنے جرم میں غفلت اور کوتاہی کے ذمہ داروں کو بہت خوبصورتی سے بچا لیا۔

اس واردات میں پس پردہ کئی دیگرافراد بھی ملوث ہیں جن تک کچھ سوالوں کے جوابات حاصل کرکے پہنچا جاسکتا ہے۔

ملک میں مروجہ نظام تعلیم کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر بتائی جاتی ہے تاہم ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اس نصاب کو خالصتاً مذہبی نہیں کہا جاسکتا۔ اسی نصاب میں ڈارون کی تھیوری بھی ہے جو انسان کے ارتقاء پر بحث کرتے ہوئے اسے بندر سے انسان تک کا سفر قراردیتی ہے۔ اسی میں کائنات پر بحث کرتے ہوئے نظام شمسی کے اصولوں کا ذکراورانسان کے علاوہ مخلوقات کے بارے میں بیانات ہیں۔

اسی نصاب میں ایسی خامیاں، کمزوریاں یا مبہم بیانیے بھی ہیں جو سولہویں جماعت تک پہنچنے والے مشال جیسے نوجوانوں کے ذہنوں میں سوالات کوجنم دیتا ہے اور وہ اس کی تلاش میں دینی اور دنیاوی ماہرین تعلیم کی تحقیق سے متعلق پڑھتے ہیں لیکن ان کو ان سوالوں کے اطمینان بخش جواب پھر بھی نہیں مل پاتے۔ نظام اورنصاب تعلیم میں ان تشنگیوں کا ذمے دارکون ہے؟

حکومت اس وقت ہی کیوں جاگتی ہے جب پانی سر کے اوپر سے گزرچکا ہوتاہے؟ نصاب تعلیم پر مسلسل نظرثانی کو کیوں ضروری نہیں سمجھا جاتا اورخامیوں کے تدارک کے لیے اقدامات کیوں نہیں ہوتے۔ نگرانی یا نظرثانی کا کوئی نظام موجود ہے تو وہ فعال کیوں نہیں ہے؟ کون ان سوالوں کا جواب دے گا؟

مشال کو قتل کرنے والوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی بجائے اس کی شکایت کیوں نہیں کی؟ اور اگر انہوں نے کہیں شکایت کی بھی تھی تو پھر کیا ایکشن لیا گیا؟ اور اگر کہیں کوئی خاموش رہا ہے یا اس نے بات کی اہمیت کو نہیں سمجھا تواس کی کیا سزا ہونی چاہئے؟

مشال کو جب مارا جارہا تھا تو پولیس بھی وہاں موجود تھی، پولیس کے کسی سپاہی یاا فسرکو سزا کیوں نہیں دی گئی؟ مشال کے قتل کو ایک فوجداری نوعیت کا مقدمہ قراردے کرصوبائی حکومت اس میں براہ راست فریق کیوں نہیں بنی؟

یہ بھی فخریہ انداز میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے ہمیشہ بدعنوانی کرنے والوں سمیت حکومتی امور میں کوتاہی پربڑے بڑے لوگوں سے استعفے لئے ہیں، لیکن کیا اس معاملے میں صوبائی حکومت کے کسی ذمہ دار نے استعفیٰ دیا؟ یا کسی ذمہ دار کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟

مشال قتل کیس میں 26 ملزمان کو بے گناہ قرار دے کربری کردیا گیا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا کرائم سین پرموجود کوئی شخص غیرجانبدارہو سکتا ہے؟ میرے تجزیے کے مطابق یا تو وہ شخص قاتل ہوگا، یا مقتول اوراگروہ اس واردات میں ملوث نہیں بھی تھا تووہ عینی شاہد تو بہرحال ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ جن 26 افراد کو بری کردیا گیا جب کہ وہ کرائم سین پرموجود تھے تو ان کو کلین چٹ کیسے ملی اورپولیس نے اپنی تفتیش میں ان کے بارے میں کیا کہا؟

مشال قتل کیس کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ اس پر لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد تھے تو یونیورسٹی انتظامیہ پہلے سے ہی ان افراد کو روکنے میں کیوں ناکام ہوئی اور کیا صوبائی حکومت نے کسی ذمہ داراہلکارکے خلاف کارروائی کی؟

سوال تو یہ بھی ہے کہ مشال قتل کیس کے مرکزی ملزم کو اب تک گرفتار کیوں نہیں کیا جاسکا؟

سوال یہ بھی ہے کہ کیا قاتل اتنے طاقتور ہیں کہ ان کے سامنے حکومت کی حیثیت ایک بے بس تماشائی کے علاوہ کچھ نہیں؟

ایسے بھی سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے مشال قتل کیس کے بعد بننے والی فضا کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ان کے خلاف کیا ہوا؟

مشال کواگربے گناہ قتل کیا گیا ہے تواس کی بہنیں اوراہل خانہ مسلسل خوف کا کیوں شکار ہیں؟ کیا کسی نے اس کی بہنوں کے سر پر ہاتھ رکھا اور ان کوتعلیم جاری رکھنے کا حوصلہ اورسہارا دیا؟

یہ اور اس طرح کے درجنوں سوالات بچھو کی طرح میرے ذہن کو ہرلمحے ڈنگ مارتے ہیں لیکن جواب کہیں نہیں مل رہا۔ جواب نا ملنے سے بھی زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ مشال خان کے بہیمانہ قتل پرموم بتیاں جلانے والوں اور جلسے کرنے والے سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اس کے لواحقین کی مدد کرنے کے لیے دکھاوے کے شور شرابے کے علاوہ کوئی عملی کام نہیں کیا۔

اگر ہم مشال قتل کیس کے صرف ظاہری معاملات پراپنی توجہ مرکوز رکھ کراس کے اصل اور بنیادی نکات کو نظرانداز کردیں گے تو ہر وہ مجرم جسے سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے وہ با آسانی بچ نکلے گا۔

معاشرے کو سدھارنا ہے تو صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو زبانی جمع خرچ کی عادت ترک کرکے عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ہم اپنی جوان نسل کو بہتر اور تابناک مستقبل دے سکیں۔ جوعوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر عوامی نمائندہ ہونے کے دعویدار ہیں انہیں عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی۔

جس طرح ارکان پارلیمنٹ اپنی تنخواہ، مراعات اور مرضی کی قوانین کی منظوری کے لیے ایک ہوجاتے ہیں اسی طرح اگرعوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مشال کا قتل جیسے واقعات مستقل رک سکیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔