میموگیٹ کیس:حسین حقانی کو پاکستان لانے کیلئے انٹرپول کوخط لکھ دیا، ایف آئی اے

سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی—۔فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں میمو گیٹ کی سماعت کے دوران  فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے آگاہ کیا کہ سابق سفیر حسین حقانی کو گرفتار کرکے پاکستان واپس لانے کے حوالے سے انٹرپول کو خط لکھ دیا ہے جبکہ ڈوزیئر تیار کرکے وہاں بھجوانا ہے، جس پر عدالت عظمیٰ نے ایک ہفتے کے اندر یہ کام کرنے کی ہدایت کردی۔

واضح رہے کہ مذکورہ کیس کی 15 فرروی کو ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حلف کی خلاف ورزی پر امریکا میں مقیم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

جس پر حسین حقانی نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ ایسے وارنٹس کو ماضی میں بھی ملک سے باہر کوئی اہمیت نہیں ملی اور اس مرتبہ بھی نہیں ملے گی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے آج میموگیٹ کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ 'حسین حقانی کی گرفتاری کے لیے انٹرپول کو خط لکھ دیا ہے، انٹرپول نے حسین حقانی سے متعلق کچھ سوالات پوچھے ہیں جبکہ ڈوزئیر تیارکرکے انٹرپول کو بھجوانا ہے'۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ 'حسین حقانی بھی کافی متحرک ہیں'۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اِن چیمبر کیس سننے کی استدعا بھی کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'حسین حقانی پاکستان سے باہر ہے، نہیں معلوم حسین حقانی دوہری شہریت رکھتے ہیں'۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 'انٹرپول نے ریڈ وارنٹ جاری کرنے ہیں، ہماری انٹرپول پر دسترس نہیں جبکہ انٹرپول کو درکار مواد بھی فراہم کرنا ہوگا'۔

اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 'انٹرپول کا ریڈ وارنٹ جاری کرنے کا طریقہ کار ہے، ایف آئی  اے کو وہ طریقہ کار پورا کرنے دیں'۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اگر کوئی جرم ہوا تو مقدمہ درج کیوں نہ ہوا؟'

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ ایک ہفتے کے اندر جو کرنا ہے وہ کرلیں، جس کے بعد سماعت ایک ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حق رائے دہی کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران میموگیٹ کیس کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ حسین حقانی وطن واپس آکر میمو گیٹ کاسامنا کریں۔

بعدازاں 2 فروری کو چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ تشکیل دیتے ہوئے میموگیٹ کیس کو سماعت کے لیے مقرر کردیا۔

تاہم 5 فروری کو اپنے ایک بیان میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے میمو گیٹ کیس دوبارہ کھولے جانے کو 'سیاسی تماشہ' قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے بعد 4 چیف جسٹس آئے، کسی نےکیس کو ہاتھ نہیں لگایا'۔

میمو گیٹ اسکینڈل کیا ہے؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں اُس وقت امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی کا ایک مبینہ خط (میمو) سامنے آیا تھا۔

حسین حقانی کی جانب سے بھیجے جانے والے میمو میں مبینہ طور پر یہ کہا گیا تھا کہ ایبٹ آباد میں القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پر امریکی حملے کے بعد ممکن ہے کہ پاکستان میں فوجی بغاوت ہوجائے۔

میمو گیٹ میں اُس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے امریکا سے معاونت مانگی گئی تھی تاکہ حکومت ملٹری اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قابو میں رکھ سکے۔

اس سلسلے میں تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مذکورہ میمو درست ہے اور اسے امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔

کمیشن نے کہا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد امریکی حکام کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ پاکستان کی سول حکومت امریکا کی حامی ہے۔

اس معاملے کو اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف سپریم کورٹ میں لے کر گئے تھے جس کے بعد حکومت نے حسین حقانی سے استعفیٰ لے لیا تھا اور وہ تب سے بیرون ملک مقیم ہیں۔

مزید خبریں :