02 مارچ ، 2018
کراچی: نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کرنے کے مقدمے میں گرفتار ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) قمر احمد شیخ کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دے دیا۔
نقیب قتل کیس میں نامزد سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار احمد کے قریبی ساتھی اور ڈی ایس پی ملیر سٹی قمر احمد شیخ کو پولیس نے آج بھی خاص پروٹوکول کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ میں واقع انسداد دہشتگردی عدالت پہنچایا۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے منتظم جج نے سماعت کے بعد ڈی ایس پی قمر احمد شیخ کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔
اس مقدمے میں ڈی ایس پی قمر احمد سمیت 10 ملزمان گرفتار جبکہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 14 پولیس افسران و اہلکار مفرور ہیں۔
گرفتار ملزمان میں ڈی ایس پی قمر احمد شیخ کے علاوہ سب انسپکٹر محمد یاسین، اے ایس آئی اللہ یار کاکا، سپرد حسین، ہیڈ کانسٹیبلز محمد اقبال، خضر حیات، پولیس کانسٹیبلز غلام ناذک، عبدالعلی، ارشد علی اور شفیق احمد شامل ہیں۔
دوسری جانب راؤ انوار، ان کے قریبی ساتھی سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت اور شیخ محمد شعیب عرف شعیب شوٹر سمیت 14 ملزمان مقدمے میں مفرور ہیں۔
واضح رہے کہ قمر احمد شیخ اس علاقے کے ڈی ایس پی نہیں ہیں، جہاں نقیب اللہ محسود سمیت 4 ملزمان کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا بلکہ یہ اس کے قریبی علاقے ملیر سٹی میں تعینات تھے۔
تحقیقات کے دوران بیان دینے کے بعد انہیں پہلی بار جانے دیا گیا تھا تاہم بعد میں مقدمے کا حصہ بنائی گئی ایک ویڈیو کے ذریعے پولیس مقابلے میں ان کی موجودگی کے شواہد ملنے پر تحقیقاتی ٹیم نے قمر احمد شیخ کو بیان دینے کے لیے دوبارہ بلایا اور 19 فروری کو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
قمر احمد ایم کیو ایم کے خلاف 1992 میں کیے گئے فوجی آپریشن میں بھی غیر معمولی طور پر فعال تھے، وہ گزشتہ 10 سال سے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی ٹیم کا اہم رکن تھے اور ضلع ملیر کے اہم سب ڈویژن میں بطور ڈی ایس پی تعینات تھے۔
نقیب اللہ کا ماورائے عدالت قتل اور تحقیقات
واضح رہے کہ رواں برس 13 جنوری کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس مقابلے کے دوران 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا، جن میں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا۔
بعدازاں نقیب اللہ محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
بعدازاں آئی جی سندھ کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کی، جس کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لیا، لیکن اب تک راؤ انوار کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔