حکومتی و اپوزیشن ارکانِ قومی اسمبلی نئی حلقہ بندیوں کیخلاف یک زبان ہوگئے

اسلام آباد: حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکنے والے ارکان قومی اسمبلی الیکشن کمیشن کی مجوزہ نئی حلقہ بندیوں کے خلاف یک زبان ہوگئے جبکہ سیکریٹری الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹ میں غلطیاں ہوسکتی ہیں، سیاسی جماعتوں کے اعتراضات دور کیے جائیں گے اور عام انتخابات وقت پر ہی ہوں گے۔

الیکشن کمیشن کی مجوزہ نئی حلقہ بندیاں کے خلاف حکومتی اور اپوزیشن ارکان قومی اسمبلی متحد ہوگئے ہیں، حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کہتے ہیں کہ مجوزہ حلقہ بندیاں انتخابات سے پہلے دھاندلی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی کا کہنا ہے حلقوں میں آبادی کے فرق کا معاملہ عدالتوں میں جائے گا،انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں جبکہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی نے کہا کہ سدا بہار سیاست دانوں کو نوازا جا رہا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ کہتی ہیں کہ حکام نے نقشے دیکھ کر نئی حلقہ بندیاں کر دیں انہیں زمینی حقائق کا علم ہی نہیں۔

قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں حکومتی و اپوزیشن ارکان اسمبلی شریک ہوئے۔

اجلاس میں ارکان نے نئی حلقہ بندیوں پر کئی اعتراض اٹھائے، کسی نے کہا کہ مجوزہ نئی حلقہ بندیوں میں ایکٹ اور رولز کی خلاف ورزی کی گئی، آبادی کے فرق کو مدنظر نہیں رکھا گیا تو کسی نے کہا کہ حلقہ بندیاں ووٹرز لسٹوں کے مطابق ہونی چاہیے تھیں، کئی اضلاع کے حلقے شمال سے کلاک وائز نہیں بنائے گئے۔

اجلاس میں شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ 25 مارچ تک نئی حلقہ بندیوں سے متعلق تمام تفصیلات جمع کرلی جائیں۔

سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے اجلاس کے دوران کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو مجوزہ حلقہ بندیوں پر اعتراض ہے، الیکشن کمیشن اعترضات کا طریقہ کار آسان بنائے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے ایس اقبال قادری نے کہا کہ اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی گئی جبکہ آفتاب شیر پاؤ نے کہا کہ مجوزہ حلقہ بندیاں غلط اور غیر فطری ہیں، یہ آبادی کی بجائے ووٹر لسٹوں کی بنیاد پر ہونی چاہئیں۔

کرم ایجنسی سے رکن قومی اسمبلی ساجد حسین طوری نے کہا کہ مجوزہ حلقہ بندیوں سے فسادات کا خطرہ ہے۔

اجلاس میں سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کے مطابق حلقہ بندیاں کی ہیں، ابتدائی رپورٹ میں غلطیاں ہو سکتی ہیں انہیں دور کر لیا جائے گا اور عام انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ مجوزہ حلقہ بندیوں پر تحریری اعتراضات تاحال دائر نہیں ہوئے،حلقہ بندیاں وقت پر مکمل کی ہیں حتمی حلقہ بندیاں 5 مئی تک مکمل کرلیں گے۔

قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے حلقہ بندیوں سے متعلق اعتراضات کا جائزہ لینے کےلیے ورکنگ کمیٹی بنادی جو 3 روز میں رپورٹ پیش کرے گی۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن نے 5 مارچ کو حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست جاری کی تھی، حلقہ بندیوں پر دستاویزات کے ساتھ اعتراضات تحریری طور پر 3 اپریل 2018تک دفتری اوقا ت کے دوران سیکریٹری الیکشن کمیشن کو جمع کروائے جاسکتے ہیں۔

4 اپریل سے اعتراضات سنے جائیں گے اور 3 مئی کو حتمی طور پر حلقہ بندیوں کی اشاعت کر دی جائے گی۔

مزید خبریں :