26 مارچ ، 2018
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق سینیٹر نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے نہال ہاشمی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو شرم سے ڈوب جاتا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران سابق سینیٹر نہال ہاشمی نے سپریم کورٹ سے معافی کی اپیل کی۔
جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'آپ معافی کی اپیل کیسے کر سکتے ہیں؟'
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ نے عدالت کی توہین کی ہے، یہاں کھڑے ہو کر اپنے لیے بھی یہی الفاظ دہرائیں'۔
نہال ہاشمی نے کہا کہ 'میں نے ایسا نہیں کہا'۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 'اتنے بزرگ بیٹھے ہیں سب کو دکھا دیتے ہیں اور رشید اے رضوی کو ثالث مقرر کر لیتے ہیں'۔
بعدازاں نہال ہاشمی کے بیان کی ویڈیو عدالت میں چلا دی گئی۔
تاہم نہال ہاشمی نے موقف اختیار کیا کہ 'میں وکیل ہوں ایسا نہیں کہہ سکتا'۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو شرم سے ڈوب جاتا'۔
چیف جسٹس نے نہال ہاشمی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'عدالت کو بتائیں کہ آپ نے نازیبا الفاظ کس کے لیے استعمال کیا'۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے رشید اے رضوی کو مخاطب کرکے کہا کہ 'آپ بتائیں، انہوں نے عدالت کے بارے میں کیا کہا؟'
رشید اے رضوی نے جواب دیا کہ 'ہم نے پی سی او ججز کے بارے میں بھی ایسی بات نہیں کی اور قانون کی حکمرانی کے لیے کھڑے رہے'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'کوئی وکیل ایسی بات نہیں کرسکتا، اس ادارے سے ہماری پہچان ہے۔'
چیف جسٹس نے نہال ہاشمی کو مخاطب کرکے کہا کہ 'کل میرا بیٹا پکڑا گیا تو بھی وکیلوں کے ذریعے دفاع کروں گا'۔
ساتھ ہی جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ 'اب وکلاء بتائیں کہ باہر کھڑے ہو کر گالیاں دینے والے کو کیا سزا دی جائے؟ آج وکلا کا انصاف بھی دیکھ لیتے ہیں'۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'اب بھی اس شخص کو پشیمانی نہیں،اب بھی جھوٹ بول رہا ہے'۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ 'بار کے سرکردہ بزرگوں کو بلائیں اور پوچھیں کہ انکا کیا کرنا ہے'۔
جس پر ممبر سندھ بار کونسل نے کہا 'اس میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں'۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا نہال ہاشمی آپ ندامت کا اظہار کرتے ہیں کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے'۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'اگر وکلا معاف کرتے ہیں تو ہم بھی معاف کر دیں گے، ہمارا اتنا ظرف ہے'۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ 'دیکھیں گے نہال ہاشمی کی وکالت کا لائسنس کیسے ختم کرسکتے ہیں'۔
بعدازاں کیس کی سماعت کل (27 مارچ) تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
واضح رہے کہ سینیٹر نہال ہاشمی نے گزشتہ برس کراچی میں ایک عدلیہ مخالف تقریر کی تھی، جس پر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
کیس کی سماعت کے بعد رواں برس یکم فروری کو سپریم کورٹ نے سینیٹر نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ایک ماہ قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنادی، جس کے بعد وہ 5 سال کے لیے نااہل ہوگئے تھے۔
تاہم 28 فروری کو اڈیالہ جیل سے رہائی پانے کے بعد نہال ہاشمی نے اپنی تقریر میں دوبارہ عدلیہ پر تنقید کی، جس پر عدالت نے انہیں دوبارہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔
توہین عدالت کیس کی 12 مارچ کو ہونے والی گذشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کا جواب غیرتسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 26 مارچ کی تاریخ مقرر کی تھی۔