24 مئی ، 2018
اسلام آباد: قومی اسمبلی میں فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31 آئینی ترمیم کو منظور کر لیا گیا۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور چوہدری نثار سمیت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی خصوصی طور پر شریک ہوئے۔
اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف محمود بشیر ورک نے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم بل پیش کیا۔
حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنما داور کنڈی نے بل کی مخالفت کی۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران بل کی کاپیاں بھی پھاڑیں۔
فاٹا کے خیبر ختونخوا میں انضمام سے متعلق 31 ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری لی گئی۔
بل کی حمایت میں 229 اراکین نے ووٹ دیے جب کہ صرف ایک رکن نے اس کی مخالفت کی۔
حکومتی اتحادی مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی ایوان میں موجود نہیں تھے۔
بل کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس بل کی منظوری میں اپوزیشن جماعتوں نے اہم کردار ادا کیا جس پر ان کا شکر گزار ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ فاٹا اصلاحات بل کی منظوری ابتداء ہے اور ہمیں فاٹا کے عوام کو پاکستان کے دیگر علاقوں کے برابر حقوق دے کر ان کا اعتماد بحال کرنا ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بل کی منظوری پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ فاٹا کے علاقوں میں جو خلا تھا آج اسے پُر کر لیا گیا ہے، وقت فیصلہ کرے گا کہ یہ بالکل درست اقدام تھا۔
انہوں نے کہا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام بہت آسان ہو گا بلکہ اس میں بہت سے مسائل سامنے آئیں گے۔
چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ جو لوگ فاٹا کو الگ صوبے کی تجویز دے رہے ہیں انہیں سمجھنا چاہیے کہ ان کی تجویز ناقابل عمل ہے کیونکہ ایف سی آر کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ فاٹا بل کی منظوری تمام جماعتوں کی بڑی کامیابی ہے، ڈکٹیٹر بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن بل قومی اسمبلی منظور کرتی ہے۔
نوید قمر نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کا بل ابھی سینیٹ اور صوبائی اسمبلی سے بھی منظور ہونا ہے، تحریک انصاف صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلوا کر فاٹا بل کو منظور کروائے۔
قبل ازیں جے یو آئی (ف) کے رکن اسمبلی جمال الدین نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آئین سے فاٹا کا نام آج نکل رہا ہے، فاٹا کے عوام سے رائے لیے بغیر نظام مسلط کریں گے تو پریشانی ہوگی۔
جے یو آئی (ف) کی ہی رکن شاہدہ اختر نے کہا کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنائیں ان کا حق نہ چھینا جائے۔
پشتونخوا میپ کی رکن نسیمہ پانیزئی نے ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے عوام کی رائے کے خلاف اقدام قبول نہیں۔
اس سے قبل ایوان میں مطلوبہ ارکان کی تعداد نہ ہونے پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ حکومت یا اپوزیشن کا نہیں بلکہ سب کا بل ہے، ڈیڑھ سو سال کی تاریخ بدلنی ہے، آدھا گھنٹہ اور انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس موقع پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہم تو ایک گھنٹہ انتظار کرنے کو تیار ہیں۔
فاٹا اصلاحات بل
فاٹا اصلاحات بل کے تحت آئندہ پانچ سال تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 اور سینیٹ میں 8 نشستیں برقرار رہیں گی اور فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات اگلے سال ہوں گے۔
بل کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی کی نشتیں 342 سے کم ہو کر 336 ہو جائیں گی اور سینیٹ کی نشستیں بھی 104 سے کم ہو کر 96 ہو جائیں گی۔
بل کے مطابق صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر اور گورنر کے خصوصی اختیارات ختم ہوجائیں گے اور ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔
این ایف سی ایوارڈ کے تحت فاٹا کو 24 ارب روپے کے ساتھ 100 ارب روپے اضافی ملیں گے اور 10 سال کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا خصوصی فنڈ ملے گا جو کسی اور جگہ استعمال نہیں ہو سکے گا۔
ترمیمی بل میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھایا جائے گا جب کہ پاٹا اور فاٹا میں 5 سال کے لیے ٹیکس استثنا دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی جانب سے ترمیمی بل کی مخالفت برقرار ہے۔