12 جون ، 2018
اسلام آباد:احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپنے خلاف نیب ریفرنسز کی پیروی کی غرض سے وکیل مقرر کرنے کے لیے 19 جون تک کی مہلت دے دی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور ایون فیلڈ نیب ریفرنسز کی سماعت کی۔
سابق وزیراعظم نوازشریف آج اپنے وکیل کے بغیر احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی عدالت میں موجود تھیں۔
سماعت کے آغاز پر جج محمد بشیر نے نواز شریف سے استفسار کیا کہ 'آپ کو دوسرا وکیل رکھنا ہے یا خواجہ حارث کو ہی کہا ہے؟'
ساتھ ہی جج نے کہا کہ 'ابھی تک خواجہ حارث کی کیس سے دستبرداری کی درخواست منظور نہیں کی گئی'۔
جس پر نواز شریف نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 'یہ اتنا آسان فیصلہ نہیں، ایک وکیل نے کیس پر 9 ماہ محنت کی ہے'۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ 'خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں کہہ دیا تھا کہ وہ ہفتہ، اتوار کو کام نہیں کریں گے، ہم تو روز لاہور سے آتے ہیں اور سحری کرکے عدالت کے لیے روانہ ہوتے ہیں'۔
ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ 'اب کیا24/7 کیس چلانا ہے؟ کیا ایسی کوئی اور مثال ہے؟'
نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ 'اس کیس میں 100 کے قریب پیشیاں ہو چکی ہیں'۔
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے عدالت سے کہا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ اس مرحلے پر نیا وکیل مقرر کرنا ممکن نہیں'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہفتے اور اتوار کو یا عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد سماعت نہیں ہونی چاہیے، ہم پیر سے جمعہ تک اس عدالت میں پیش ہو رہے ہیں، اس وجہ سے سپریم کورٹ سے میرا ایک کیس عدم پیروی پر خارج ہوگیا جبکہ شرجیل میمن کیس میں ایک ملزم کا وکیل ہوں اور عدالت میں پیش نہ ہونے پر مجھ پر جرمانہ ہوا'۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں ہدایات عدالت کے لیے تھیں، پراسیکیوشن یا وکیل صفائی کے لیے نہیں،ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب
سماعت کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ 'آج ایون فیلڈ میں وکیل صفائی کے حتمی دلائل کے لیے کیس مقرر تھا، خواجہ حارث کا ایسے وقت میں دستبردار ہونا مناسب نہیں'۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ 'سپریم کورٹ کے فیصلے میں ہدایات عدالت کے لیے تھیں، پراسیکیوشن یا وکیل صفائی کے لیے نہیں'۔
سردار مظفر عباسی نے جج احتساب عدالت کو مخاطب کرکے کہا کہ 'وکلاء صفائی یا ہم آپ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتے، کورٹ کو آپ کو ریگولیٹ کرنا ہے'۔
سردار مظفر عباسی کا مزید کہنا تھا کہ 'ابھی توسپریم کورٹ کا آرڈر بھی نہیں ملا، عدالت ہفتے اتوار کو سماعت چلانے پر زور دیتی تو وہ اپنے تحفظات عدالت کو بتا سکتے تھے'۔
جس پر جج محمد بشیر نے کہا کہ 'تھوڑی دیر بیٹھ جاتے ہیں اور سپریم کورٹ کے آرڈر کی کاپی منگوا کر پہلے اسے پڑھ لیتے ہیں'۔
اس کے ساتھ ہی احتساب عدالت نے سپریم کورٹ کے آرڈر کی کاپی منگوالی۔
جج محمد بشیر نے کہا کہ 'سپریم کورٹ کے حکم نامے میں 4 ہفتوں کا کہا گیا ہے اور ہفتےکو سماعت کا اختیار اس (احتساب) عدالت کو دیا گیا'۔
جس پر نواز شریف نے کہا کہ 'اس عدالت پر چھوڑا ہے تو انہیں 4 ہفتوں کا بھی نہیں کہنا چاہیے'۔
جس پر جج محمد بشیر نے کہا کہ 'خواجہ صاحب خود ہی تو کہا کرتے تھے کہ وہ رات 8 بجے تک رک سکتے ہیں'۔
نواز شریف کا جج احتساب عدالت سے مکالمہ
نواز شریف نے جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ 2018 کے انتخابات متاثر کرنے کی اسکیم ہے، ایسا ہے تو سپریم کورٹ اس کیس کو اپنے پاس طلب کرکےفیصلہ سنا دے'۔
سابق وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ اپنی نوعیت کا الگ کیس ہے، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا پھر وہ مانیٹرنگ جج بھی بنے ہوئے ہیں، میرے کیس کی اپیل بھی انہی کے پاس جائے گی، کیا پاکستان میں کوئی دوسرا ایسا کیس کوئی بتا سکتے ہیں'؟
جج محمد بشیر نے کہا کہ 'مانیٹرنگ جج ہوتے ہیں، 2ماہ کی مدت بھی دی گئی ہے، اس کیس میں ویسے بھی مانیٹرنگ جج کا کیا رول ہے؟'
نواز شریف نے کہا کہ 'یہ ہمارا واحد کیس ہے جو اتنی اسپیڈ سے چل رہا ہے'۔
جس پر جج محمد بشیر نے ریمارکس دیئے کہ 'اچھا نہیں کہ آپ کی جان چھوٹے؟'
اس موقع پر نواز شریف نے کہا کہ 'اچھا ہے یہ کیس چلے اور ہماری جان چھوٹے'۔
نواز شریف نے مزید کہا کہ 'جو چاہیں فیصلہ کرلیں، پھانسی پر لٹکانا ہے تو پھانسی پر لٹکا دیں، جیل بھیجنا ہے تو جیل بھیج دیں'۔
ساتھ ہی انہوں نے شکوہ کیا کہ 'کیا بیگم کی عیادت کے لیے درخواست دینا تشہیر کے لیے ہوتا ہے؟ کیا یہ دل دُکھانے والی بات نہیں ہے؟'
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'میں نے تو چیف جسٹس کو کوئی درخواست دی ہی نہیں کہ میرے اوپر رحم فرمائیں'۔
سماعت کے بعد عدالت نے نواز شریف کو خواجہ حارث سے رابطے کے لیے وقت دے دیا اور کہا کہ 'خواجہ حارث سے فون پر بات کرلیں یا ملاقات کرکے آجائیں'۔
سماعت کے بعد احتساب عدالت نے نواز شریف کو وکیل مقرر کرنے کے لیے 19 جون تک کی مہلت دے دی۔
واضح رہے کہ نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت بھی 19 جون کو ہی ہوگی، جہاں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کو طلب کیا گیا ہے۔
دوسری جانب ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 14 جون تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیئے کہ 'نواز شریف اور مریم نواز پرسوں کی سماعت پر بےشک پیش نہ ہوں'۔
خواجہ حارث کی نواز شریف کے نیب ریفرنسز سے دستبرداری
واضح رہے کہ گزشتہ روز احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران خواجہ حارث نے نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے عدالت سے اپنا وکالت نامہ واپس لینے کی درخواست کی تھی۔
خواجہ حارث نے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے اتوار (10 جون) کو سماعت کے دوران نواز شریف کے خلاف تینوں نیب ریفرنسز کا ٹرائل 6 ہفتوں میں مکمل کرنے سے متعلق ان کے موقف کو تسلیم نہیں کیا اور یہ ڈکٹیشن بھی دی کہ ایک ماہ میں ریفرنسز کا فیصلہ کریں، لہذا ان حالات میں وہ کام جاری نہیں رکھ سکتے۔
جس پر احتساب عدالت نے ملزم نواز شریف کو وکیل مقرر کرکے آج (12 جون) تک عدالت کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
کیس کا پس منظر
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔
العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔
نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔
نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔
جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔