26 جولائی ، 2012
اسلام آباد … چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دئیے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کی دستاویز توہین عدالت ایکٹ کے حوالے سے تشریح میں معاون ہوگی، عدالت نے توہین عدالت ایکٹ کو آئین کی کسوٹی پر پرکھنا ہے، پارلیمنٹ اپنا اور عدلیہ اپنا کام کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں نئے قانون کے خلاف دائر مختلف 25 آئینی درخواستوں کی سماعت چوتھے روز بھی کی ، مزیدسماعت کل ہو گی۔ راولپنڈی ہائی کورٹ بار کی طرف سے دائر درخواست پر بار کے صدر احسن الدین شیخ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل مکمل کر لئے ہیں۔ احسن الدین شیخ نے توہین عدالت کے قانون کے بل پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ہونے والی بحث میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی تقاریر اسمبلی ریکارڈ سے پڑھیں۔ ان کا موٴقف تھا کہ ریکارڈ سے بات سامنے آئی ہے کہ یہ بل مخصوص عزائم کے باعث لایا گیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کو آئین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ ایک موقع پر جب کیپٹن صفدر کی تقریر میں تجویز کا حوالہ دیا گیا کہ بل کے حوالے سے حکومت کو عدلیہ سے پوچھنا چاہئے تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کیا ہم یہاں ان کے منشی بیٹھے ہیں، اسمبلی ریکارڈ سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اپوزیشن کے احتجاج اور مخالفت کے باعث رولز کو معطل کر کے بل کو منظور کیا گیا۔ شیخ احسن نے جب یہ کہا کہ ججز دستور کے مطابق پارلیمنٹ کو تحفظ دے رہے ہیں جبکہ پارلیمنٹ کے نمائیدے عدلیہ مخالف قانون بنا رہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے یہ کوئی ذاتیات نہیں ہے کہ تم میری حمایت کرو میں تمھاری حمایت کروں، آپ ایسی باتیں نا کریں ججز کا کام فیصلے کرنا ہے اس دروازے کے باہر کیا ہو رہا ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔