’وجود‘ بڑی فلم میں کہانی کی تلاش

— فوٹو: فلم تشہیری پوسٹر 

اس میں کوئی شک نہیں کہ وجود اس سال چھوٹی عید پر ریلیز ہونے والی سب سے بڑی فلم تھی۔ بڑی سے مراد اس فلم کا بجٹ اور کاسٹ تھی جو باقی فلموں سے کافی بڑی تھی۔

اس فلم میں پہلی بار پاکستان فلم انڈسٹری کے تین عظیم سپر اسٹار ندیم صاحب، شاہد صاحب اور جاوید شیخ صاحب کی ایک ساتھ انٹری تھی۔ فلم ترکی سمیت یورپ کی خوبصورت لوکیشن پر شوٹ ہوئی تھیجب کہ فلم کا ٹریلر بہت زوردار تھا اور غالباً جاوید شیخ کی بطور جاسوس انٹری کے بعد عید کی باقی فلموں کے ٹریلر سے تیز اور بہتر بھی۔ فلم کے دو رومانٹک سانگ بھی اچھے تھے اور فلم کی سینماٹوگرافی بھی ڈائریکٹر جاوید شیخ کی پچھلی فلموں کی طرح بہت اعلی لگ رہی تھی لیکن فلم عید پر ’سات دن محبت اِن‘ اور ’آزادی‘ سے پیچھے رہی۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وجود کے کم اوپننگ ہونے کی سب سے بڑی وجہ اس فلم کو باقی دونوں فلموں سے کافی کم شوز ملنا تھا لیکن مجموعی طور پر فلم کو کہانی، اسکرین پلے اور اداکاری نے بھی بڑا نقصان پہنچایا۔

— فوٹو: اسکرین گریب 

جب فلم کے شروع میں ہی اس طرح کے مکالمے سننے کو ملیں کہ ”ماں میں آرہا ہوں“ یا ”میرا بچہ کتنا دبلا ہوگیا ہے“ تو پتا چل جاتاہے کہ گڑ بڑ ہوچکی ہے ۔یہ اِس وقت کے مکالمے ہیں جب واٹس ایپ ، فیس بک کا دور ہے یہاں تک کے اسکائپ کا زمانہ بھی تقریبا ختم ہوچکا ہے۔ ہیرو کوئی چھوٹا موٹا کام نہیں کرتا بلکہ پائلٹ ہے اور جس کی تنخواہ بھی 40 لاکھ روپے ماہانہ ہے جس کے کروڑوں کے گھر میں گاڑیاں بھی کروڑوں کی کھڑی ہیں اور ہیرو اپنے امیر ماں باپ کا اکلوتا کماؤ پوت بیٹا ہے یہی نہیں فلم کی ہیروئن اداکاری میں کمزور ہونے کے ساتھ خوبصورتی میں بھی ہیرو سے پیچھے نظر آتی ہے۔

فلم کا پہلا پورا حصہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کو منانے کے بعد شادی پر لگ جاتاہےجب کہ لڑکی کے گھر والوں کیلئے لڑکے کے والدین کے منہ سے یہ بات اہم نہیں کہ لڑکے نے لڑکی کو غنڈوں سے بچایا اپنی جان کو خطرے میں ڈالا مگر ان کو لڑکے کے دوست کے منہ سے یہ راز کمزور کردیتا ہے کہ ان کی لائق بیٹی کو ایک ”ڈریم کنٹریکٹ “اُسی ہیرو کی وجہ سے ملا۔

دوسرے حصے میں ہیرو جو شادی کے بعد اب 70 ہزار ڈالرز کی تنخواہ پر ترکی گیا ہے اپنی ”باس“کے ساتھ کھلے عام لنچ بھی نہیں کرسکتا، اس کی ایک تصویر جو” اوپن ایریا“ میں لی گئی ہے پورے گھر کو بے چین کردیتی ہے یہی نہیں ہیرو کی دلہنیا جو خود شادی سے پہلے” ملٹی نیشنل کمپنی“ میں سائٹ وزٹ کرتی ہے وہ ترکی جا کر اپنے میاں کو ایک اور ”اوپن ریستوران“ میں لنچ کرتے ہوئے نہ صرف پکڑتی ہے بلکہ جھگڑتی بھی ہے۔

— فوٹو: اسکرین گریب

یاد رہے ابھی اس کو اپنے میاں اور اس کی باس کے ماضی اور حال کا کچھ حال نہیں پتا، اسکرپٹ کو اگر”ویری فلمی “بنانا تھا تو اس کا اسکرین پلے اسے مضبوط کرتا لیکن یہاں دونوں شعبوں میں کمزوری شدت سے محسوس کی گئی جو فلم کے آخر تک فلم دیکھنے والوں کو بے چین کرتی ہے۔ فلم کے اینڈ تک جو راز کھلتے ہیں وہ دیکھنے والے کو متاثر نہیں کنفیوز کرتے ہیں۔

فلم میں سائیڈ ہیرو اور ہیروئن کے بھی اچھے خاصے مناظر ہیں، ندیم بیگ اور شاہد صاحب کے کریکٹر کسی بھی اداکار سے کروائے جاسکتے تھے جب کہ دانش تیمور نے یہاں پائلٹ بن کر بھی ویسی ہی ایکٹنگ کی جو انھوں نے ”مہر انساء وی لب یو“ میں چین سے آکر کی تھی۔ خصوصاً دوست سے بات کرتے ہوئے تو یکسانیت بہت واضح تھی جب کہ دانش کی” اسکرین پریزنس“ بہت اچھی ہے، وہ پوری فلم میں ”خوبصورت “ لگے لیکن اداکاری میں میدان فتح نہیں کرسکے۔

فلم کی ہیروئن اور ویمپ کو بھی ملا کر فلم کی کہانی اور سب اداکاروں کو ایک پلڑے میں ڈالا جائے تو بھی دوسرا پلڑا صرف جاوید شیخ کی انٹری، لُک، ڈائیلاگز اور ایکٹنگ کی وجہ سے بھاری پڑجائیگا۔ جاوید شیخ کا کردار فلم میں بہت دیر سے آتا ہے اور بہت تھوڑی دیر کیلئے آتا ہے۔ یہ فلم کا ایک اور منفی پہلو ہے کیونکہ رانگ نمبر ہو یا نا معلوم افراد سیریز یا پھر جوانی پھر نہیں آنی سب فلم میکرز سے جاوید شیخ کے رول سے فائدہ اٹھایا یہاں تک کہ وجود کے ساتھ ریلیز ہونے والی ”سات دن محبت اِن“ کی جان اور جن بھی جاوید شیخ ہی تھے۔

وجود کے ٹریلر میں بھی جان جاوید شیخ کی آواز اور انداز نے ڈالی تھی لیکن فینز کاان کا مختصر رول دیکھ کر بھی مایوسی ہوئی۔

— فوٹو: اسکرین گریب 

فلم کی عکاسی انتہائی شاندار ہے اور ٹیکنیکلی بھی بہت ساؤنڈ ہے۔ فلم سینما پر فلم ہی لگتی ہے ٹی وی ڈرامہ نہیں لیکن کمزور کہانی ،اداکاری میں مصنوعی پن اور سب سے بڑھ کر فلم کے کم شوز نے فلم کے بزنس کو بری طرح متاثر کیا۔ فلم کا میوزک اچھا تھا لیکن جاوید شیخ صاحب کے اپنے معیار کے حساب سے بھی اسے کمزور ہی کہا جائیگا۔

شیخ صاحب نہ صرف بڑے اداکار ہیں بلکہ زبردست فلم ڈائریکٹر بھی لیکن ہماری رائے کے مطابق جو غلط بھی ہوسکتی ہے انھیں اگلی فلم میں کہانی اور اداکاروں کا سلیکشن کرتے ہوئے بڑا”سلیکٹڈ “ ہونا پڑے گا۔

باقی ہٹ فلم بنانے کا فارمولا کسی کے پاس نہیں، ہوسکتا ہے کہ اس فلم کو شوز زیادہ ملتے تو فلم کا بزنس اور زیادہ ہوتا لیکن یہ کمزوریاں بہر حال اپنی جگہ رہتیں۔

نوٹ :

1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا اور اُس فلم کیلئے کام کرنے والا، فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے۔

2۔۔ ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے۔ فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی ، ایل ای ڈی،موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔

3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔

4۔۔ غلطیاں ہم سے ،آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔

5۔۔ فلم کے ہونے والے باکس آفس نمبرز یا بزنس کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے جو کچھ مارجن کے ساتھ کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوسکتا ہے۔

6۔۔ فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں۔ بڑی سے بڑی فلم ناکام اور چھوٹی سے چھوٹی فلم کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایک جیسی کہانیوں پر کئی فلمیں ہِٹ اور منفرد کہانیوں پر بننے والی فلم فلاپ بھی ہوسکتی ہیں۔کوئی بھی فلم کسی کیلئے کلاسک کسی دوسرے کیلئے بیکار ہوسکتی ہے۔

7۔۔ فلم فلم ہوتی ہے، جمپ ہے تو کٹ بھی ہوگا ورنہ ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال، ڈھائی سو سال، ڈھائی سال، ڈھائی مہینے، ڈھائی ہفتے، ڈھائی دن تو دور کی بات دوگھنٹے اور اکتیس منٹ بھی سما نہیں سکتے۔

مزید خبریں :