04 اگست ، 2018
عام انتخابات 2018 اپنی جگہ متنازع ہی سہی لیکن اب ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف وفاق کی جماعت بن کر ابھری ہے۔
وفاق میں حکومت سازی کے لیے جہاں تحریک انصاف پر پھیلارہی ہے وہیں اس نے پنجاب میں حکومت بنانے کا بھی مصمم ارادہ کر رکھا ہے اور اس کے لیے عمران خان کے اہم ترین جہانگیر ترین اپنے طیارے میں کبھی مشرق تو کبھی مغرب کی جانب فراٹے بھررہے ہیں۔
عام انتخابات 2013 میں میاں نوازشریف نے پاکستان تحریک انصاف کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہوئے اسے خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع دیا، اب یہ موقع پی ٹی آئی کو امتحان میں ڈالنے کے لیے دیا گیا یا ان کا مینڈیٹ تسلیم کیا گیا یہ اور بات، لیکن نوازشریف کا یہ اقدام خود ان کے گلے پڑ گیا۔
اقتدار کے ایوانوں کی طِفل پی ٹی آئی نے جیسے تیسے خیبرپختونخوا میں کام کرنا شروع کیا اور شاید اسی کی بنیاد پر صوبے کے عوام نے وہاں کی انتخابی تاریخ ہی بدل ڈالی۔
اب عام انتخابات 2018 میں عوام نے جہاں مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں بھاری اکثریت دلوائی وہیں تحریک انصاف بھی اس کے ہم پلہ نظر آئی اور اسی بنیاد پر اس نے پنجاب میں حکومتی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کا تہیہ کرلیا ہے لیکن کیا یہ فیصلہ تحریک انصاف کے لیے بہتر ثابت ہوگا؟
پنجاب میں پچھلے 10 سال مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی اور شہبازشریف طاقتور ترین وزیراعلیٰ تصور کیے جاتے تھے، ان کا بیورو کریسی، صوبے کی سیاست پر مکمل کنٹرول تھا اور صوبے کے مسائل بھی کافی حد تک حل ہوتے رہے لیکن اب پنجاب کے مسائل، وہاں کی سیاست اور بیورو کریسی تحریک انصاف کے سامنے منہ کھولے کھڑے ہوں گے۔
شہبازشریف جیسے فعل وزیراعلیٰ کے بعد کیا تحریک انصاف صوبے میں اتنا ہی مستعد وزیراعلیٰ لا سکے گی؟ کیا صوبے کی بیورو کریسی بشمول پولیس کو پی ٹی آئی قابو کرسکےگی؟ کیونکہ یہ وہی پولیس ہے جس کی بندوقوں نے ماڈل ٹاؤن میں گولیاں اگلیں۔
اگر سرمنڈاتے ہی اولے پڑگئے اور تحریک انصاف کی حکومت میں ڈینگی کی وباء پھیل گئی تو اس کی حکومت مچھر کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو گی؟ کیونکہ شہبازشریف نے خیبرپختونخوا میں ڈینگی کی وباء پر وقتاً فوقتاً تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو ہدف تنقید بنایا۔
پنجاب میں صرف شہبازشریف ہی نہیں بلکہ (ق) لیگ کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے کام بھی اظہر من الشمس ہیں جن میں ان کا سب سے بڑا کام ریسکیو 1122 ہے جو آج بہترین اداروں میں شمار کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود پنجاب کے عوام نے 2008 کے انتخابات میں عنان حکومت مسلم لیگ (ن) کو ودیعت کی جو تحریک انصاف کے لیے اہم سوال ہے۔
پرویز الٰہی کے پنجاب میں انفرا اسٹرکچر اور اداروں پر کام کرنے کے باوجود پنجاب کے عوام شہبازشریف کو کیوں نہ بھلاسکے؟ اور 2008 میں وفاق میں پیپلز پارٹی کی اکثریت کے باوجود پنجاب (ن) لیگ کی جھولی میں کیسے آگرا؟
شہبازشریف سے متعلق مشہور ہے کہ وہ پنجاب کے چپے چپے سے واقف ہیں اور صوبے کی صورتحال سے آشنا رہتے ہیں۔
شہبازشریف نے لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی کارکردگی دکھائی، جس میٹرو بس کو عمران خان جنگلا بس کہہ کر اپنے نشانے پر رکھتے تھے وہی منصوبہ ان کی خیبرپختونخوا حکومت کے گلے کا طوق بن گیا جس پر (ن) لیگ نے انتخابی مہم میں انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔
پرویز الٰہی کی کارکردگی کو پس پشت ڈال کر شہبازشریف کو لانے والے پنجاب کے عوام کے لیے کیا عمران خان کے وزیراعلیٰ کے پاس ایسے منصوبے ہوں گے جس سے وہ عوام کا دل موہ لیں؟
پنجاب میں بے شمار چیلنجز عمران خان کے وزیراعلیٰ کو درکار ہوں گے جو ان کے آئندہ پانچ سالوں کے لیے وفاق میں مستقبل کا تعین کریں گے۔
اگر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت پنجاب میں کارکردگی نہ دکھا پائی تو خان صاحب کے لیے اگلا الیکشن ’الامان الحفیظ‘ ہوگا کیونکہ پنجاب میں قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ 141 نشستیں ہیں جو کسی بھی سیاسی جماعت کو ایوان وزیراعظم تک پہنچنے میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتی ہیں۔
عمران خان کے لیے اب دو راستے ہیں اگر وہ پنجاب میں حکومت بناتے ہیں تو انہیں اس بار خیبرپختونخوا کی بجائے وفاق کی چابی یعنی پنجاب پر نظر رکھنا ہوگی اور اگر وہ (ن) لیگ کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہیں اور وزارت اعلیٰ اس کی جھولی میں ڈالتے ہیں تو انہیں تحریک انصاف کا نہیں بلکہ ملک کا وزیراعظم بن کر ان کے کاندھے سے کاندھا ملانا ہوگا ورنہ دوسری صورت میں وفاق کے بعد انتہائی مضبوط اپوزیشن پنجاب میں بھی خان صاحب کی منتظر ہے۔
عمران خان کے لیے پنجاب کی حکومت کانٹوں کی سیج ہے جس کے زخم انہیں آئندہ پانچ سال یا تو گھائل کریں گے یا پھر خان مرد بحران بن کر سرخرو ہوں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔