15 اگست ، 2018
اگر آپ کو امریکا میں بنی ہوئی شاندار گاڑی پانچ لاکھ روپے میں ملے تو کیا آپ اِنہی پیسوں میں اپنے ملک میں بنی ہوئی نسبتاََ کم شاندار گاڑی خریدنا پسند کریں گے؟
کیا یہاں پیسے لگانے والے ایسے کارخانے بنائیں گے جہاں انھیں گاڑی بنا کر چار لاکھ کی پڑے اور پھر وہ اس گاڑی کا مارکیٹ میں مقابلہ کریں جو نہ صرف ان سے بہتر ہو بلکہ وہ باہر سے منگوانے والوں کو صرف دو لاکھ روپے کی پڑ رہی ہو؟ اگر آپ کو اپنے ملک میں بنی ہوئی گاڑی آدھی قیمت میں ملے تو کیا گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوگا؟ اگر اپنے ملک میں کارخانے لگانے والوں کو وہ گاڑی جو انھیں چار لاکھ کی پڑ رہی تھی، کم سے کم ڈیڑھ لاکھ کی پڑے اور وہ پھر بھی اپنی گاڑیوں کو مارکیٹ میں ڈھائی لاکھ کے بجائے پانچ لاکھ میں ہی فروخت کریں تو کیا ہوگا؟
اگر یہاں کی گاڑی آپ کو سستی بھی ملے لیکن اس میں ڈلنے والا پیٹرول مہنگا ہو، اس کی مین ٹیننس (دیکھ بھال) مہنگی ہو تو آپ کیا کریں گے؟ کیا باہر سے آئی شاندار گاڑی یہاں کی سڑکوں اور موسم کے حساب سے بنی ہوئی ہے؟
کیا یہاں کے لیے گاڑی بنانے والوں نے ہی یہاں کی سڑکوں کا، موسم کا خیال رکھنا تو نہیں چھوڑ دیا؟ اگر یہاں بنائی گئی سستی گاڑی کی امریکا میں فروخت شروع ہوتی ہے چاہے اس میں پرافٹ مارجن کم ہو یا نہ ہونے کے برابر ہو لیکن وہاں یہ گاڑی نظر آنا شروع ہوجائے اور آہستہ آہستہ اپنی پہچان بنائے تو اس میں فکر کی بات ہے یا فخر کی؟
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ فلمی صفحے پر گاڑی کی معلومات یا سوالات غلطی سے چھپ گئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ یہ جو گاڑیوں سے متعلق سوالات اوپر اٹھائے گئے ہیں، وہ ہماری فلم انڈسٹری سے متعلق ہیں۔ آپ صرف لفظ ”گاڑی“ کو ”فلم“ سے تبدیل کرلیں سب آسان ہوجائے گا۔
اگر اب بھی آپ نہیں سمجھے تو ہم آپ کو سمجھاتے ہیں لیکن نتیجہ آپ کو خود نکالنا ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر 8 ارب روپے مالیت سے بننے والی فلم ”مشن امپاسبل“ جو دنیا بھر میں اب تک چالیس ارب روپے کا بزنس کرچکی ہے، وہ یہاں پاکستان میں دو، تین یا چار کروڑ روپے میں بن جاتی ہے یا پھر کمیشن پر معاملہ طے پاتا ہے اور وہ یہاں سے بارہ کروڑ تک کا بھی بزنس کرتی ہے تو سب کی جیب میں ٹھیک ٹھاک پیسہ آتا ہے لیکن انہی دو سو سے کم سینما گھروں میں پاکستان میں بننے والی کسی بھی 8کروڑ بجٹ کی فلم کو پرافٹ میں آنے اور اگلی فلم بنانے کی ہمت کرنے کے لیے کم سے کم 20کروڑ روپے کا بزنس کرنا پڑے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں فلموں کے ٹکٹ کا ریٹ بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کی فلموں کو فروغ دینے کے لیے فلم پر لاگت بھی کم ہونی چاہیے، دوسرا ان کے ٹکٹ میں بھی فرق ہونا چاہیے۔
ان دونوں چیزوں کے لیے ڈیوٹیز اور ٹیکس میں واضح کمی ہونی چاہیے، فلم بنانے پر نہیں، اس کے ”پرافٹ“ پر ٹیکس لگنے پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں کے فلم بنانے والوں کو اپنے مالی معاملات بھی انتہائی شفاف رکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ نہیں ہوگا کہ فلم بنی تو دو کروڑ کی ہو اور دعویٰ چار کروڑ کا کیا جائے، سینسر پالیسی بھی یہاں کے لیے نرم اور باہر کی فلموں کے لیے سخت ہونی چاہیے۔ باہر کی فلموں پر کسی دور میں بھی پابندی لگانا غلط تھی اور آئندہ بھی غلط ہوگی کیونکہ مقابلہ تو کرنا ہے اور سب کا کرنا ہے۔
ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلموں کی وجہ سے ہی سینما گھروں کی بقاء اور یہاں کی فلموں کا ”ریوائیول“ ممکن ہے اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں۔
بڑے بڑے سینما گھروں کے ٹکٹ، بزنس اور شوز کے معاملات انتہائی شفاف ہوتے ہیں، جہاں ہر چیز کو دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے، یہی شفافیت پروڈیوسرز، ڈسٹری بیوٹرز اور ایگزیبیٹرز کے ساتھ ایکٹرز کو بھی برقرار رکھنی ہوگی۔
پاکستان کے فلمی معیار کی بات ہو تو یہاں ’کیک‘، ’موٹر سائیکل گرل‘ اور ’ساون‘ جیسی ”بالکل ہٹ کر“ فلمیں بن رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ’طیفا ان ٹربل‘، ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘، ’ایکٹر ان لاء‘، ’رانگ نمبر‘ اور ’جوانی پھر نہیں آنی‘ جیسی کمرشل مصالحہ فُل انٹرٹینمنٹ فلمیں بھی ہماری انڈسٹری نے دی ہیں۔
پاکستان میں ہالی وڈ اور بالی وڈ سمیت تمام ٹاپ 5 فلموں میں سے 3 پاکستانی فلمز ہیں، جن میں ’سنجو، ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘، ’جوانی پھر نہیں آنی‘، ’سلطان‘ اور ’طیفا ان ٹربل‘ شامل ہیں، جنہوں نے پاکستان میں سب سے زیادہ بزنس کیا۔
اب امکان یہ ہے کہ ’طیفا ان ٹربل‘ سب سے آگے آجائے گی۔ کیا یہ تینوں فلمیں پاکستان کا فخر نہیں؟ کیونکہ پاکستان میں بالی وڈ اور ہالی وڈ اسٹارز کو بھی اتنا ہی چاہا جاتا ہے جتنا یہاں کہ اسٹارز کو اور یہاں کسی قسم کا کوئی تعصب نہیں۔
کچھ لوگ تنقید کرتے ہیں کہ باہر ریلیز سے پاکستانی فلموں کو کیا ملتا ہے تو ان کو جواب ہے کہ ”پہچان“ اور یہ ایک آہستہ لیکن لمبے وقت کی سرمایہ کاری بھی ہے۔
چین سے بالی وڈ کی فلموں کو کچھ نہیں ملتا تھا، عامر خان کی فلمیں وہاں دس کروڑ سے پچاس کروڑ تک کے بزنس تک آئیں جن میں سے واپس شاید ایک آدھ کروڑ آیا ہو لیکن پھر ’پی کے‘ نے صرف چین میں 100 کروڑ اور دنگل نے تو 2000 کروڑ کے قریب بزنس کیا یعنی لمبی انویسٹمنٹ اور اعتبار کا فائدہ ہوا اور دنگل سے عامر خان کو کم سے کم تین سو کروڑ صرف چین سے ہی واپس منافع ملا۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پاکستانی فلمیں اپنی پہچان بنارہی ہیں اور ’خدا کیلئے‘ اور ’بول‘ کے بعد ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘، ’تیرے بن‘، ’کیک‘ اور ’جوانی پھر نہیں آنی‘ اور اب ’طیفا‘ نے خاص طور پر برطانیہ میں بھی زبردست بزنس کیا ہے۔
’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ کا تو ریلیز کا پہلا ہفتہ وہاں فی اسکرین یا شوز کی اوسط کے حساب سے سب ہالی وڈ اور بالی وڈ کی فلموں سے بھی آگے رہا تھا۔
یہاں کے حالات کے حساب سے فلم بنانا مشکل بزنس اور فلم پوری فیملی کے ساتھ دیکھنا بھی مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ فلم کے ساتھ لوازمات ہوں تو ایک چھوٹی فیملی کو بھی اچھے سنیما میں پوری فلم کا ایک شو 5 ہزار کے قریب پڑتا ہے، ایک اچھی اور محفوظ انٹرٹینمنٹ کے باوجود 5 ہزار کافی بڑی رقم ہے۔
یہاں سب فلم بنانے والوں کو بیٹھ کر اپنی اپنی فلموں کو ٹی وی چینلز میں قید کرنے کے بجائے انھیں آزاد رکھنے کی پالیسی بھی بنانی پڑے گی۔ فلم بنانے والوں اور اس میں کام کرنے والوں کو اپنے آپ کو لچکدار بنانا ہوگا تاکہ کم سے کم فلم کے دنوں میں اُن کا رابطہ سب سے آسانی سے ہوسکے، چاہے اس کام کے لیے کسی کوآرڈینیٹر کی مدد لینی پڑے کیونکہ بزنس اور بجٹ سے لے کر کئی سوالات ہوتے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں دیتا۔
فلم بنانے والوں کو بھی اپنی فلم محنت کے ساتھ بنانی ہوگی، جونیئرز کو سینئرز کا سہارا اور سینئرز کو جونیئرز کی مدد لینی ہوگی۔
ہالی وڈ یا بالی وڈ سمیت کسی بھی فلم پر پابندی لگانا مسئلہ کا حل نہیں بلکہ خود بڑا مسئلہ ہے کیونکہ یاد رہے کہ اگر آپ امریکا یا کسی بھی اور ملک کی پانچ لاکھ کی گاڑی پر پابندی لگوا کر اپنی دو لاکھ والی گاڑی چھ لاکھ میں فروخت کرنے کی کوشش کریں گے تو نتیجہ تباہی ہوگا صرف تباہی۔