15 اگست ، 2018
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کے دوران تینوں کے وکلاء نے دلائل مکمل کر لیے۔
جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کر رہا ہے۔
دوران سماعت ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی درخواست پر پیرا گراف وائز کمنٹس کے لیے وقت مانگا اور استدعا کی کہ جواب داخل کرنے کے لیے 2 دن کا التواء دیا جائے جسے عدالت نے مسترد کردیا۔
سردار مظفر عباسی نے التوا کا عذر پیش کرتے ہوئے کہا کہ وقت پر وکیل صفائی سے درخواست کی کاپی نہیں ملی اس لیے سماعت ملتوی کی جائے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ التوا کے لیے گراونڈ نہیں بنتا اور نیب وکیل صفائی پر ایسے انحصار نہیں کرسکتا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں شہر سے بھی باہر تھا تاہم عدالت نے آج سماعت سے التوا کی درخواست مسترد کردی جس کے بعد نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل شروع کیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نواز شریف کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق نواز شریف کی ملکیت سے متعلق ریکارڈ پر کچھ نہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جی نیب گواہان نے تسلیم کیا کہ نواز شریف کے خلاف براہ راست ثبوت نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ' عام آدمی سمجھتا ہے جائیداد بچے کی ہے تو باپ جواب دے، قانون وہ نہیں کہ جس کی پراپرٹی ہے ثبوت بھی وہی دے لیکن سپریم کورٹ کا بنایا ہوا قانون مختلف ہے اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ بچوں اور نواز شریف کے معلوم ذرائع نیب ریکارڈ پر لے کر آئی ہے۔
جب اثاثوں کی قیمت ہی معلوم نہیں تو پھر تضاد کیسا؟، جسٹس اطہر من اللہ
جس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ کو بتانا ہے کہ کیسے معلوم ذرائع ریکارڈ پر لائے، یہ منی لانڈرنگ کا کیس نہیں ہے جس پر سردار مظفر نے کہا کہ میں آپ کو وجوہات بتاؤں گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ جب اثاثوں کی قیمت ہی معلوم نہیں تو پھر تضاد کیسا؟ آپ کو عدالت کو بتانا ہے کیسے بغیر اثاثے معلوم کیے تضاد سامنےآیا۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاءنے اثاثوں کا چارٹ پیش کیا اور نہ ہی اس کا حوالہ دیا جس پر فاضل جج نے استفسار کیا کہ یہ چارٹ جے آئی ٹی نے بنایا تھا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ جے آئی ٹی نے تیار کیا لیکن واجد ضیاءنے پیش کیا اور نہ اس کا حوالہ دیا جب کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں اس چارٹ پر اعتراض کیا اور یہ اعتراض ابھی بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔
خواہشات پر مقدمات کا فیصلہ ہونے لگے تو معاشرے سے انصاف ختم ہوجائے گا، جسٹس اطہر من اللہ
سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ کہا کہ رجسٹرار آفس سے بتایا گیا کہ 13 اگست کو ججز سے منسوب غلط ریمارکس چلائے گئے اور ہم نے یہ معاملہ سنجیدگی سے لیا ہے جسے ایف آئی اے کو بھجوا رہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ منظم طریقے سے غلط ریمارکس بنچ سےمنسوب کیے گئے، خواہشات پر مقدمات کا فیصلہ ہونے لگے تو معاشرے سے انصاف ختم ہوجائے گا۔
فاضل جج نے مزید کہا کہ ہم میڈیا کی قدر کرتے ہیں لیکن جو لوگ یہ سب کر رہے ہیں وہ توہین کے مرتکب ہوئے، ہم نے پہلے ہی پوچھ لیا تھا کسی فریق کو بنچ پر اعتراض ہے تو بتا دے لیکن کسی فریق نے انگلی نہیں اٹھائی۔
جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس دیے کہ شفاف ٹرائل کے لئے ضروری ہے کہ عدالت پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے، اگر عدالت کے باہر ٹرائل شروع ہوجائے تو وہ سنگین توہین عدالت ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم پر کوئی دباو نہیں، سامنےکوئی بھی ہو، قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔
مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے وکیل کے دلائل
جسٹس میاں گل حسن نے دوران سماعت مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل امجد پرویز سے پوچھا کہ یہ 23 جون کا خط کدھر ہے؟
امجد پرویز نے کہا کہ یہ خط ہمیں نہیں دیا گیا، ٹرائل کورٹ میں اس پر اعتراض کیا تھا اور اس حوالے سے مریم نواز کی درخواست بھی مسترد کی گئی۔
امجد پرویز نے کہا کہ یہ خط جے آئی ٹی نے براہ راست پیش کیا۔
جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ اس پر نوٹری پبلک کی تصدیق تھی؟
امجد پرویز نے جواب دیا کہ یہ قابل شواہد دستاویز نہیں ہے۔
جستص میاں گل حسن نے پوچھا کہ چیرمین نیب نے یہ نہیں لکھا؟ وفاقی حکومت کا اجازت نامہ کہاں ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کو یہ اختیار کہاں پر دیا؟
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب نے یہ اجازت نامہ ٹرائل کورٹ میں پیش کیا۔
مریم نوازاور کیپٹن صفدر کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی ہر خط کا اندراج ڈائری میں کرتی ہے لیکن اس خط کا اندراج نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی سربراہ نے تسلیم کیا کہ انہیں معلوم نہیں خط کب اور کس نے والیم فور میں شامل کیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ مریم نواز اور نواز شریف کا ان جائیدادوں سے متعلق تعلق ریکارڈر پر کیا ہے؟
امجد پرویز نے کہا کہ ریکارڈ پر کچھ بھی نہیں ہے، مجھ پر قانون کے تحت معاونت کا بھی الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کا کیس یہ ہے کہ مریم نواز بینیفیشل آنر ہے، جس پر امجد پرویز نے کہا کہ جی ایسا ہی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیورٹر سردار مظفر کو ہدایت کی کہ یہ سب نوٹ کریں پھر جوابات دینا، آپ نے نواز شریف اور مریم نواز کا کردار علیحدہ علیحدہ کر دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ نے مریم نواز پر مالک ہونے کا الزام عائد نہیں کیا، آپ نے بینیفشل آنر کہا بے نامی دار کہہ کر، اگر مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی بھی ہو تو اس کا شریف خاندان کو کیا فائدہ ہوا؟
مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے وکیل نے کہا کہ اس خط کو دفتر خارجہ سے بھی دور رکھا گیا جب کہ دیگر خط و کتابت میں دفتر خارجہ کا کردار رکھا گیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ معاونت اور سازش کا الزام کس عرصے سے تعلق رکھتا ہے؟
امجد پرویز نے بتایا کہ نیب کے مطابق جب یہ اثاثے بنائے گئے تو انہوں نے مدد کی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ نیب کے مطابق انہوں نے ثابت کیا کہ مالک بچے تھے، یہ کہتے ہیں عام طور پر بچے والدین کے زیر کفالت ہوتے ہیں۔
امجد پرویز نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے تسلیم کیا کہ نہ وہ آئی ٹی ماہر ہے اور نہ ہی کمپیوٹرکا ماہر۔
اطہر من اللہ نے پوچھا کہ پھر رابرٹ ریڈلے کس چیز کا ماہر ہے؟
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ رابرٹ ریڈلے ہینڈ رائٹنگ کا ماہر ہے۔
کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، نیب پراسیکیوٹر کل دلائل دیں گے۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو مجموعی طور پر 11 سال قید کی سزا کا حکم سنایا تھا اور 13 جولائی کو لندن سے واپسی پر انہیں لاہور ایئرپورٹ سے ہی گرفتار کرتے ہوئے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تھا۔
سابق وزیراعظم نے احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔