منی لانڈرنگ کیس: تحقیقات کے دوران مزید 15 مشکوک اکاؤنٹس کا انکشاف

منی لانڈرنگ کیس میں جعلی و بے نامی اکاؤنٹس کی تعداد 33 ہوگئی اور اب تک رقم 35سے بڑھ کر 41 ارب ہوگئی ہے، ایف آئی اے — فوٹو: فائل 

کراچی: منی لانڈرنگ کیس میں انتہائی اہم پیشرفت ہوئی ہے اور تحقیقات  کے دوران مزید 15 مشکوک اکاؤنٹس کا انکشاف ہوا ہے۔

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) حکام کے مطابق ان 15 اکاؤنٹس میں 4 بظاہر جعلی یا بےنامی اکاؤنٹس ہیں جن میں 6 ارب روپے کی رقم منتقل کی گئی۔

ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں جعلی و بے نامی اکاؤنٹس کی تعداد 33 ہوگئی اور اب تک رقم 35سے بڑھ کر 41 ارب ہوگئی ہے۔

ایف آئی اے نے بتایا کہ ان 4 اکاؤنٹس میں 6 ارب روپے کی رقم آئی اور گئی بھی ہے جب کہ ان اکاؤنٹس میں سے کچھ اومنی گروپ کے ہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق ان اکاؤنٹس سے زرداری گروپ کے اکاؤنٹ میں 9 کروڑ روپے کی ترسیل ہوئی ہے جب کہ سامنے آنے والے 11 اکاؤنٹس کی بھی تحقیقات جاری ہیں۔

واضح رہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیسز کی سماعت سپریم کورٹ اور بینکنگ کورٹ کراچی میں جاری ہیں جب کہ اس کیس میں حسین لوائی، اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور عبدالغنی مجید عدالتی ریمانڈ پر جیل پر ہیں۔

سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور نے اس کیس میں حفاظتی ضمانت لے رکھی ہے۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کا پس منظر

ایف آئی اے حکام نے جیو نیوز کو بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔

ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔

تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔

ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔

مزید خبریں :