16 ستمبر ، 2018
کراچی کے ضیاء الدین اسپتال میں شرجیل انعام میمن کے لیے سب جیل قرار دیے گئے کمرے سے شراب برآمدگی کا مقدمہ کا چالان پولیس نے شرجیل میمن سمیت چھ ملزمان کے خلاف تیار کرکے سرکاری وکیل کے پاس جمع کرادیا۔
بوٹ بیسن تھانے کے مقدمہ نمبر 398/18 میں چالان دفعہ 201/34 ت پ میں شرجیل میمن، ان کے تین ملازمین شکر دین، محمد جام اور محمد مشتاق اور دو دیگر ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے۔
ملزمان سے ملی بھگت کے الزام میں جیل کے ایک اسسٹنٹ سپریٹنڈنٹ اور کورٹ پولیس اہلکار کے نام بھی چالان میں شامل کئے گئے ہیں۔
شرجیل میمن کی قید کے لیے سب جیل قرار دیے گئے کمرہ میں چیف جسٹس نے یکم ستمبر کو چھاپا مارا تھا اور چھاپے کے بعد بوٹ بیسن پولیس نے شراب برآمدگی کا مقدمہ درج کرکے 3 ملازمین کو گرفتار کیا تھا۔
یکم ستمبر کو صبح سویرے آئی جی جیل نے وی آئی پی قیدیوں کے اسپتال میں داخلے پر چیف جسٹس کو بریفنگ دی۔
آئی جی جیل خانہ جات نے رپورٹ میں بتایا کہ شرجیل میمن ضیاء الدین اسپتال، انور مجید این آئی سی وی ڈی اور عبدالغنی مجید جناح اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
چیف جسٹس نے آئی جیل سے استفسار کیا کہ کیا واقعی یہ ملزمان ان ہی اسپتالوں میں ہیں؟ جس پر آئی جی جیل نے کہا کہ جی بالکل، یہ ملزمان ان ہی اسپتالوں میں ہیں، اس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ گاڑی تیار کی جائے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار ضیاء الدین اسپتال پہنچے تو شرجیل میمن لگژری کمرے میں سو رہے تھے اور کمرے کے باہر ملازم نے بتایا کہ شرجیل میمن کمرے میں سو رہے ہیں جب کہ ان کے کمرے کی لائٹ بھی بند تھی جس پر چیف جسٹس نے ملازمین کو لائٹیں آن کرنے اور شرجیل میمن کو اٹھانے کا حکم دیا۔
شرجیل میمن کالے رنگ کی ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں بغیر لاٹھی کے سہارے باہر آئے جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'شرجیل میمن، میں چیف جسٹس پاکستان، آپ کی خیریت معلوم کرنے آیا ہوں'۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'یہ ہے آپ کی سب جیل، سب جیل اسے کہتے ہیں؟ یہ تو مکمل صحت مند لگ رہے ہیں لہٰذا ان کو یہاں سے فوری جیل منتقل کریں'۔
چیف جسٹس نے شراب کی بوتلیں دیکھنے کے بعد شرجیل میمن سے استفسار کیا کہ یہ کیا ہیں؟ جس پر شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ یہ میری نہیں۔
دو بوتلیں ڈبے میں اور ایک ڈبے کے اوپر شراب کی خالی بوتل رکھی ہوئی تھی جس پر سپریم کورٹ کے عملے نے ایک بوتل سونگھ کر چیک کیا اور بتایا کہ اس میں سے شراب کی بو آرہی ہے۔
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیف سیکریٹری کو بلائیں اور دکھائیں یہ کیا ہو رہا ہے؟ چیف جسٹس نے عدالت واپس پہنچنے پر عدالتی عملے کو ضیاء الدین اسپتال جانے اور کمرے کا ریکارڈ مرتب کرنے کی ہدایت کی۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کا عملہ ضیاء الدین اسپتال پہنچا تو ایس ایچ او غائب تھے جس پر عدالتی اسٹاف کو ایس ایچ او کا انتظار کرنا پڑا جب کہ اسپتال اسٹاف نے سپریم کورٹ عملے کو روکنے کی بھی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ کا عملہ مزاحمت کرکے شرجیل میمن کے کمرے تک پہنچا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالتی عملے کو شرجیل میمن کے کمرے کے باہر بھی روکا گیا جبکہ کمرے میں شرجیل میمن واش روم سے تولیا پہن کر باہر نکل رہے تھے۔
شرجیل میمن نے مکالمہ کیا کہ میں نے شراب نہیں پی ہے لہٰذا میڈیکل کرالیں تاہم ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے عملے کے پہنچنے تک کمرے کی چیزیں غائب کردی گئیں، شراب کی بوتلیں اور دیگر اشیاء بھی غائب تھیں لیکن سپریم کورٹ عملے نے کمرے کی مکمل ویڈیو بنائی۔