03 اکتوبر ، 2018
کراچی: بینکنگ کورٹ نے اومنی گروپ کے 19 اکاؤنٹس بحال کرنے سے متعلق درخواست پر حتمی فیصلے کے لیے سپریم کورٹ سے رائے مانگ لی۔
کراچی کی بینکنگ کورٹ نے اومنی گروپ کی 19 اکاؤنٹس منجمد کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی جس کے بعد عدالت نے اکاؤنٹس بحال کرنے یا اسے منجمد رکھنے سے متعلق اپنا فیصلہ سپریم کورٹ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے ماتحت عدالتوں کو اومنی گروپ کے اکاؤنٹس سے متعلق کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے قبل آگاہ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔
اس لیے بینکنگ کورٹ نے اکاؤنٹس بحالی یا منجمد سے متعلق حتمی فیصلے کے لیے سپریم کورٹ سے رائے مانگ لی۔
بینکنگ کورٹ نے سپریم کورٹ کے اگلے حکم تک اومنی گروپ کی اکاؤنٹس بحالی سے متعلق درخواست نہ سننے کا فیصلہ کیا ہے۔
اومنی گروپ کی جانب سے درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گروپ کے 19 اداروں کے بینک اکاوئنٹس منجمد کر دیے جس سے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں مشکلات ہیں اس لیے اکاؤنٹس بحال کیے جائیں۔
یاد رہے کہ اومنی گروپ پر جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کا الزام ہے اور اس کیس میں گروپ کے سربراہ انور مجید اور ان کے صاحبزادوں کے علاوہ نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی گرفتار ہیں۔
مذکورہ کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی جارہی ہے، انور مجید سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی بھی سمجھے جاتے ہیں۔
اومنی گروپ کے منجمد اکاؤنٹس
اومنی گروپ کے جن 19 اداروں کے بینک اکاؤنٹس منجمد ہیں اُن میں انصاری شوگر ملز، چیمبر شوگر مل، ٹنڈو اللہ یار شوگر ملز، سجاول اینگرو فارمز، پاک ایتھنول پرائیوٹ لمیٹڈ، اومنی پولیمر پیکچر، اومنی پرائیوٹ لمیٹڈ، خوصکی شوگر ملز، لار شوگر ملز، اومنی ایسوسی ایشن، دادو انرجی، شکار پور پاور، اومنی ویلفیئر فاؤنڈیشن اور وین گارڈ شوگر ملز شامل ہیں۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کا پس منظر
ایف آئی اے حکام نے جیو نیوز کو بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔
مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔
ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔
دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔
ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔
حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔
ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔
حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔