08 نومبر ، 2018
اسلام آباد: دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی کی بیرون ملک روانگی سے متعلق خبر میں کوئی صداقت نہیں اور وہ پاکستان میں ہی موجود ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں گزشتہ روز آسیہ بی بی کو ملتان جیل سے رہا کیا گیا تھا جس کے بعد خبریں سامنے آئی تھیں کہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ بیرون ملک روانہ ہوچکی ہیں۔
تاہم ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ آسیہ بی بی پاکستان میں محفوظ جگہ پر موجود ہیں اور ان کی بیرون ملک روانگی سے متعلق خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی اب آزاد شہری ہیں اور عدالتی فیصلے کے بعد جہاں جانا چاہتی ہیں جا سکتی ہیں، آزاد شہری کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی کے خلاف نظر ثانی کی درخواست عدالت میں ہے اور قانونی طور پر اگر انہیں باہر جانے سے روکا جا سکتا ہے تو وزارت داخلہ اس حوالے سے بتا سکتی ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے آسیہ بی بی کی بیرون ملک روانگی کی خبروں پر کہا کہ میڈیا اس طرح کی خبروں سے پہلے تصدیق کر لیا کرے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی کے وطن چھوڑنے کی خبر بغیر تصدیق شائع کرنا غیرذمہ دارانہ رویہ ہے، ہیڈ لائن بنانے کے لیے جعلی خبریں بنانے کا رواج چل پڑا ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کا کیس انتہائی حساس ہے اور میڈیا کے بعض حلقوں پر زور دوں گا کہ وہ اس معاملے پر ذمہ داری کا احساس کریں۔
آسیہ کی اہلخانہ سے محفوظ مقام پر ملاقات
ذرائع کے مطابق اپنے خاندان کے ہمراہ ہیں اور سخت سیکیورٹی کے باعث انہیں محفوظ مقام پر رکھا گیا ہے۔
ذرائع کا کہناہے کہ آج علی الصبح آسیہ بی بی کی ان کے شوہر عاشق مسیح، دو بیٹیوں اور بیٹوں سے محفوظ مقام پر ملاقات بھی کرائی گئی ہے۔
آسیہ بی بی کیس— کب کیا ہوا؟
صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں یہ واقعہ جون 2009 میں پیش آیا، جب فالسے کے کھیتوں میں کام کے دوران دو مسلمان خواتین کا مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جھگڑا ہوا، جس کے بعد آسیہ بی بی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے۔
بعدازاں آسیہ بی بی کے خلاف ان کے گاؤں کے امام مسجد قاری سلام نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا۔ 5 روز بعد درج کی گئی واقعے کہ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ بی بی نے توہین رسالت کا اقرار بھی کیا۔
امام مسجد کے بیان کے مطابق آسیہ بی بی کے مبینہ توہین آمیز کلمات کے بارے میں پنچایت ہوئی جس میں ہزاروں افراد کے شرکت کرنے کا دعوی کیا گیا تھا لیکن جس مکان کا ذکر کیا گیا، وہ بمشکل پانچ مرلے کا تھا۔
آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر
مقدمے کے اندراج کے بعد آسیہ بی بی کو گرفتار کرلیا گیا اور بعدازاں ٹرائل کورٹ نے 2010 میں توہین رسالت کے جرم میں 295 سی کے تحت انھیں سزائے موت سنا دی، جسے انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
تاہم لاہور ہائیکورٹ نے اکتوبر 2014 میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
جس پر 2014 میں ہی آسیہ بی بی کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں۔
ان اپیلوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے رواں ماہ 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، اور سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو اپنے فیصلے میں آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے خاتون کی رہائی کے احکامات جاری کیے جانے کے بعد مذہبی جماعتوں کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کیا گیا۔
احتجاج کے دوران کئی شہروں میں مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی اور شہریوں کی املاک کو نقصان پہنچاتے ہوئے کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگائی گئی، 2 نومبر کی شب حکومت اور مظاہرین میں 5 نکاتی معاہدہ طے پایا جس کے بعد ملک بھر میں دھرنے ختم کیے گئے۔
دھرنے ختم کرانے کے بعد حکومت نے املاک جلانے اور پر تشدد واقعات میں ملوث شرپسندوں کیخلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا جس کے تحت سیکڑوں افراد کو گرفتار کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔
وزارت داخلہ نے بھی شرپسندوں کیخلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے جانے کی تصدیق کی تھی لیکن اب وفاقی وزارت داخلہ نے توڑ پھوڑ میں ملوث افراد کی گرفتاریاں التواء میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام صوبائی حکومتوں کو مزید گرفتاریوں سے روک دیا ہے البتہ چیف جسٹس نے مظاہروں کے دوران ہونے والی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا نوٹس لے لیا ہے۔