11 نومبر ، 2018
کراچی: منی لانڈرنگ کیس میں سپریم کورٹ کی قائم کردہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے حکومت سندھ سے مختلف محکموں کے سالانہ ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔
ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی کی جانب سے حکومت سندھ سے سال 2013 سے 2018 تک مختلف ترقیاتی اسکیموں کے پروجیکٹ چارٹر ، مختص بجٹ، جاری کردہ رقم، ریوائز اسکیم کی معلومات اور اخراجات کی تفصیلات طلب کی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جےآئی ٹی نے چیف سیکریٹری سندھ سے 12 نومبر تک تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
ذرائع کا مزید بتانا ہے کہ جے آئی ٹی کی درخواست کے بعد چیف سیکریٹری سندھ نے محکمہ منصوبہ بندی، خزانہ، توانائی، آبپاشی، ورکس، صحت، تعلیم، زراعت اور دیگر کو پیر تک فراہم کردہ پروفارمے پر تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
اس سے قبل جے آئی ٹی نے سندھ حکومت کو لکھے گئے خط میں صوبائی حکومت کے زیراستعمال تمام بینک اکاؤنٹس کی 10 سالہ تفصیلات طلب کی تھیں۔
جے آئی ٹی کی جانب سے 10 سال میں محکمہ آبپاشی اور کمیونیکشن ورکس کے ٹھیکوں کی تفصیلات بھی مانگی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ 10 سال میں دونوں محکموں میں کتنی مالیت کے اور کتنے ٹھیکے دیے گئے، اس حوالے سے بھی تفصیلات فراہم کی جائے۔
یاد رہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے 6 ستمبر کو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احسان صادق کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔
جے آئی ٹی کے ممبران میں کمشنر کارپوریٹ ٹیکس آفس عمران لطیف منہاس، ڈائریکٹر نیب نعمان اسلم، ایس ای سی پی کے ڈائریکٹر محمد افضل اور آئی ایس آئی کے بریگیڈیر شاہد پرویز شامل ہیں۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کا پس منظر
ایف آئی اے حکام نے جیو نیوز کو بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔
مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔
ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔
دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔
ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔
حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔
ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔
حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔