03 دسمبر ، 2018
پاک امریکا تعلقات میں افغانستان طویل عرصے سے اہمیت کا حامل رہا ہے، اس کی وجہ سے کبھی دو طرفہ قربتیں بڑھیں تو کبھی دوریاں اور تناؤ بھی پیدا ہوا۔
امریکی صدر کی جانب سے افغان عمل امن میں پاکستان کی معاونت مانگنے کے بعد ایک بار پھر پاک امریکا تعلقات بحال ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
80 کی دہائی میں شروع ہونے والی افغان جنگ نے روس کے خلاف پاک امریکا قربتیں بڑھائیں۔
نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تو پاکستان اس کا فرنٹ لائن اتحادی بنا اور امریکا کو زمینی اور فضائی راستے بھی دیے گئے، نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان خود بھی میدان جنگ بن گیا۔
70 ہزار سے زائد شہریوں اور قانون فانذ کرنے و الے اداروں کے اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں، 100 ارب ڈالرز سے زائد کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔
پاکستان نے خالد شیخ سمیت اہم القاعدہ رہنماؤں کو گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا مگر مئی 2011 میں ایبٹ آباد اپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد دو طرفہ تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہوتے چلے گئے۔
اسی سال نومبر میں افغان سرحد کے قریب سلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں 26 پاکستانی فوجیوں کی شہادت سے پاک امریکا تعلقات میں تناؤ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جس کے نتیجے میں پاکستان نے افغانستان کے لیے نیٹو سپلائی بند کر دی۔
جولائی 2012 میں امریکا نے سلالہ واقعہ پر پاکستان سے معذرت کر لی۔
افغانستان کے مسئلے کا بات چیت کے ذریعے حل پاکستان کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے اور اس کے لیے کوششیں بھی کی جاتی رہیں جو مختلف وجوہات کی بنا پر آگے نہ بڑھ سکیں۔
جولائی 2015 میں افغان طالبان کو مری میں مذاکرات کی میز پر لایا گیا تو افغان حکومت کی جانب سے طالبان امیر ملا عمر کی ہلاکت کی خبر سامنے آگئی۔
ایک بار پھر مذاکرات کی کوششیں شروع ہوئیں تو 21 مئی 2016 کو بلوچستان میں طالبان امیر ملا منصور کی ہلاکت کا واقعہ پیش آگیا۔
امریکا کی افغانستان میں موجودگی کو 17 سال ہو چکے، ہزاروں فوجیوں کی ہلاکتوں اور اربوں ڈالرز کے اخراجات کے باوجود اس وقت بھی امریکی اداروں کی اپنی رپورٹس کے مطابق ملک کا 40 فیصد علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی پاکستان سے متعلق سخت پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔
گزشتہ ماہ بھی امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف سخت بیانات داغے جس کا پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا۔
ڈو مور کے مطا لبات اور نومور کی دھمکیوں کے بعد اب شاید ٹرمپ انتظامیہ کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہی ہو کر گزرتا ہے۔