بلاگ
Time 13 دسمبر ، 2018

ایک خاتون کیسے بے سہارا معمر خواتین کے لئے امید کی کرن بنی؟

بڑھاپے میں والدین کی خدمت کرنا انتہائی اچھا کام ہے اور ان کی دعائیں سمیٹنا ایک بیش بہا عمل ہے۔ جو بڑھاپے میں والدین کی خدمت کرتے ہیں، ان کے لئے آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی قدرت کی طرف سے بہترین نتائج سامنے آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک زمانہ تھا جب بزرگوں کا ادب و احترام پایا جاتا تھا لیکن اب ہم شائد زندگی کی تیز رفتار دوڑ دھوپ میں مگن ہوگئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل رہے ہیں۔ یہ بزرگ کوئی غیر نہیں بلکہ ہمارے اپنے اور انتہائی قریبی افراد ہوتے ہیں، جیسے والدین۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ رجحان سامنے آرہا ہے کہ لوگ اپنی مکمل زندگیوں میں بزرگوں کو ساتھ رکھنا پسند نہیں کرتے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی کی خاتون فرزانہ شعیب نے ایک قدم آگے اٹھایا ہے ۔ وہ بے سہارا خواتین کو اپنے ادارے میں پناہ دے رہی ہیں تاکہ ان کا بڑھاپا اچھے انداز سے گزر سکے ۔

فرزانہ شعیب 18 برس قبل کراچی آئیں اور پھر اسی شہر کی مستقل باسی ہوگئیں ۔ کچھ عرصہ قبل ان کی فاطمہ نامی معمر پڑوسن باتھ روم میں پھسل کر گرگئیں، ان کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں تھا۔ وہ وہ پورے چار روز تک بے یارو مددگار، بھوکی اور زخمی حالت میں پڑی رہیں۔ لیکن انہیں فرزانہ کی شکل میں امید کی کرن مل گئی جس نے انہیں اس مشکل گھڑی سے نکالا اور اس کے بعد وہ ساڑھے تین سال وفات تک فرزانہ کے ساتھ رہیں۔

فوٹو بشکریہ بنت فاطمہ اولڈ ہوم

تاہم اس دوران ان کے پاس رہنے کے لئے مزید دو خواتین آئیں تو فرزانہ کو اس صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا۔ انہوں نے دل سے محسوس کیا کہ اس شعبہ میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی بچت شدہ رقم سے بنت فاطمہ اولڈ ہوم ٹرسٹ قائم کیا۔

ابتداء میں فرزانہ کا 5 سے 7 خواتین رکھنے کا ارادہ تھا اور اسی طرح انہوں نے کام کا آغاز کیا۔ لیکن اب ان کے گھر پر 45 خواتین رہتی ہیں۔ ان خواتین کو سرچھپانے، کھانا اور طبی دیکھ بھال کی بنیادی سہولیات حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ان میں سے بیشتر خواتین کے ذہن میں کمیونٹی سے بچھڑنے کا احساس ہے جو ان کے لئے اہم ہے اور اسی وجہ سے وہ انتہائی پیچھے ہیں۔

یہ خواتین یا تو بے گھر ہیں یا پھر معاشرے کی نظر انداز سینئر شہری ہیں جن کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے اور وہ غربت، پریشانی اور بیماری کے ساتھ اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن گزارتی ہیں۔ اگرچہ اس کام کا بڑا اجر ہے لیکن یہ کافی مشکل ہے۔

فرزانہ کو گیس، پانی اور ٹیکس سمیت بہت سے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ اس لئے اس کام میں انہیں پیسوں کا انتظام رکھنا پڑتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، "ہمیں عطیات پر انحصار نہیں کرنا پڑتا، لیکن ہم کافی خوش قسمت ہیں کہ چند خواتین کے گھرانوں کے تعاون سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خدا کا شکر ہے، ہم وسائل کا انتظام کرنے کے قابل ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہر خاتون کی پشت پر ان کی فیملی نہیں ہوتی۔ اگر فیملی تعاون کرتی بھی ہے تو وہ دورہ نہیں کرتی بلکہ صرف پیسے بھجوا کر مدد کرتی ہے ۔"

فوٹو بشکریہ بنت فاطمہ اولڈ ہوم

فرزانہ بتاتی ہیں کہ ہمیں کسی بھی چیز سے زیادہ اس طرح کے نظرانداز کرنے کے طرز عمل کا سامنا کرنا انتہائی اداسی کا باعث ہے۔ کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جن کی فیملیز انہیں یہاں لائیں اور انہیں یہاں چھوڑ گئیں، حالانکہ وہ فیملیز خود ان کا زیادہ بہتر خیال رکھ سکتی ہیں لیکن وہ نہیں رکھتیں۔

تاہم فرزانہ کو اپنے اس کام سے سکون ملتا ہے اور وہ سمجھتی ہیں کہ یہ ان کی زندگی کا فرض ہے۔ اب ان کی صرف یہ خواہش ہے کہ معمر خواتین کی بہتر دیکھ بھال ہو اور وہ اس امید پر اکثر فیملیز کو مشاورت فراہم کرتی ہیں کہ اگر وہ مدد کرسکیں تو ساتھ اکھٹے رہ سکیں۔ اگر نہیں، تو وہ ہمیشہ ان خواتین کورہائش فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔

فرزانہ کو وہاں رہائش پذیر خواتین اور اسٹاف امی کہہ کر پکارتا ہے، ان کی اپیل ہے کہ جو اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہتا ہے، وہ اپنے فرائض کو نظرانداز نہ کرے جس طرح وہ نظر انداز نہیں کررہیں۔ انہیں امید ہے کہ یہ عمل رائیگاں نہیں جائے گا۔ اس کام میں ہر ایک کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔

رواں سال پاکستانی موبائل فون کمپنی یوفون نے اپنی رمضان مہم 'بنو اچھائی کی مثال' میں فرزانہ شعیب کو شامل کیا ہے تاکہ دیگر لوگوں کو ان سے تحریک اور حوصلہ ملے ۔ معمر خواتین کی دیکھ بھال کے سماجی کام میں ان کے مثالی کردار کی وجہ سے یوفون ان کا پیغام آگے بڑھانے کے لئے مدد فراہم کررہا ہے۔

فرزانہ بتاتی ہیں، "مجھے خوشی ہے کہ اب لوگ بنت فاطمہ کے بارے میں معلومات حاصل کررہے ہیں اور میں ہر ممکن بہتر انداز سے ان خواتین کی دیکھ بھال کرتی ہوں، کیونکہ اب یہ میرے بچوں کی طرح ہیں۔"

فرزانہ اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کو قبول کرنے کا پہلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ کام مکمل ہوتا ہوا نظر آئے۔ اسی وجہ سے وہ بنت فاطمہ اولڈ ہوم ٹرسٹ میں اوپن ڈور پالیسی کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ، کوئی بھی شخص صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک یہاں دورہ کرسکتا ہے۔

اسی شفافیت کی وجہ سے امید ہے کہ لوگ آگے بڑھ کر مدد کریں گے تاکہ وہ پائیدار انداز سے اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ فرزانہ دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اپنی ماؤں کے لئے کچھ کریں۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔