24 دسمبر ، 2018
سب سے پہلے سیدھی بات ’زیرو‘ شاہ رخ خان کی اب تک کی سب سے بڑی اور” دل“ کے قریب فلم ہے، صرف اداکاری کی بات ہو تو اس فلم میں کنگ خان نے ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ اور ’چک دے‘ کے شاہ رخ خان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
سیدھی بات کے بعد ڈھیر سارے سوالات، کیا ’زیرو‘ صرف ”دل والوں “ کیلئے بنی ہے؟ زیرو کی کہانی میں ”فلمی “ کیا ہے؟ کیا زیرو سے شاہ رخ خان بہترین اداکار کا ایوارڈ بطور” ہیرو“ آخری بار جیت سکیں گے؟ زیرو میں ایسا کیا ہے جو کبھی فلموں میں نہیں دیکھا گیا؟ زیرو میں کس بڑے کپور کو”ہیرو“ اور کس کپور کو ”زیرو“ دکھایا گیا ہے؟
کیا واقعی کترینا کیف کا اس فلم میں کردار ’ٹھگز آف ہندوستان‘ جیسا غیر اہم اور مختصر ہے؟ جب وقت اچھا نہیں ہو تو کیا ہوتا ہے؟ کیا زیرو شاہ رخ خان کی سب سے کامیاب فلم بن پائے گی؟
شاہ رخ کی موٹر سائیکل پر کترینا کی گاڑی کے پیچھے جانا، کترینا کی آنکھوں کا پھیلا ہوا کاجل اور شاہ رخ کی ہمت سب فلم دیکھنے والوں کے دل میں اٹک جاتی ہے
ان سوالات کے جواب کی تلاش سے پہلے آپ کو فلم کی کہانی مختصراً بتادیں (کہانی سننے سے نہ گھبرائیں کیونکہ فلم میں جو مزا ہے وہ آپ کو فلم دیکھ کردوبارہ فلم دیکھنے کے بعد آئے گا)۔
فلم کی کہانی اُس زیرو کی ہے جو چھوٹے شہر میرٹھ کے بعد اس سے آگے دلی پھر اس کے بعد اور آگے امریکا اور اس کے بعد بہت ہی ”آگے“ اور ”اوپر“ جا کر دوسروں کے ساتھ لگ کر ان کی ویلیو بڑھادیتا ہے۔
شاہ رخ خان نے چھوٹے قد کے اڑتیس (39) سال کے منچلے اور غیر شادی شدہ کا رول ادا کیا ہے جو اپنی جسمانی کمزوری کے باوجود گھبراتا، ڈرتا یا شرماتا نہیں بلکہ اُلٹا مکار، تھوڑا چالباز، ذرا کمینہ، بڑا عاشق، کچھ پاگل، آدھا شاعر، تھوڑا مینٹل ہے ساتھ ساتھ دلدار، چھچھورا، بے حیاء، مطلبی اور اور اور،، سب کچھ ہے ( شاید کچھ کو یہ بات بھی ہضم نہیں ہوئی کیونکہ ان کے نزدیک بونے کا مطلب تو صرف اداسی، پریشانی، اچھائی اور رونا ہی ہونا چاہیے تھا) ساتھ مقبول بھی بہت ہے۔
یہ ہیرو بلکہ زیرو بارش سے ڈرتا ہے نہ اڑتے تیروں سے یہ تو جوہری ہے جو ہزاروں تصویروں میں چھپا ہیرا اپنے لیے فٹ سے تلاش کرلیتا ہے، سیلفیوں کا شوقین ہیرو کواپنی محبوبہ کو پہلی ملاقات میں کانٹوں سے بھرا پھول دینے میں بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی وہ بھی گملے کے ساتھ اور تو اور یہ اپنے باپ کو بھی جو منہ میں آئے بَک دیتا ہے چاہے پھر تھوڑی یا زیادہ مار ہی کیوں نہ کھانی پڑے ۔
”میرے نام تو“ گانے کو پورے شاہ رخ خان کے کیریئر کیلئے چاند کہا جاسکتا ہے جہاں بہت سارے رومانٹک گانوں کے تارے بھرے ہوئے ہیں
”بھوا“ یعنی ہیرو یعنی زیرو فلم میں اپنے چھوٹے قد کا راز بھی سب کے سامنے کھول دیتا ہے جس پر ٹریلر دیکھنے والوں کو بھی دوبارہ ہنسی آتی ہے لیکن سبق بھی ملتا ہے۔
یہ واقعی ایسا مطلبی ہے جسے کسی سے رات ساڑھے تین بجے تک نفرت اور اچانک چار بجے تک محبت ہوجاتی ہے۔
یہ ہیرو زندگی کاٹنے پر نہیں زندگی جینے پر یقین رکھتا ہے، اس چھوٹے قد کے ”گنوار“ انسان کی قسمت اپنے ملک کی سب سے خوبصورت اور کامیاب حسینہ کترینا سے کیسے جڑتی ہے؟ سپر اسٹار کترینا اس بھوے کا بوسہ کیوں لیتی ہے پھر دھتکارتی کیوں ہے؟
لیکن معذور سائنسدان انوشکا سے گنوار بھوے کا رشتہ برابری کا کیسے ہوجاتا ہے؟بھوے کی دلہن انوشکا بنے گی یا کترینا؟ یا یہ دونوں دلہن کسی اور کیلئے بنتی ہیں؟بھوا امریکا میں کیا گُل کھلاتا ہے؟
انوشکا کو گنوار کیوں پسند ہیں؟چھوٹے سے محلے کی کہانی اچانک اسپیس ریسرچ سینٹر پر ختم کیوں ہوتی ہے؟یہ جاننے کیلئے فلم تو دیکھنا بنتی ہے۔
فلم دیکھتے ہوئے یہ سوال ضرور اٹھتے ہیں کہ بھوا اتنا امیر تو نہیں جتنا وہ پیسہ لٹاتا ہے؟ عافیہ جیسے پروفائل کی تصویر شادی کروانے والے کے پاس کیا کر رہی ہوتی ہے؟
شاہ رخ نے ”بھوا “ بن کر جو ”جوا“ کھیلا ہے اس میں وہ سو فیصد کامیاب ہوئے ہیں
کترینا کا زیرو کا بوسہ لینا؟ تارے توڑنے کی منطق؟ زیرو کے امریکا جانے کا قصہ؟ وہاں انٹری پھر وہاں سے ”اڑنے “ اور”نیچے آنے“ کا قصہ بہت زیادہ فلمی ہے لیکن ہم سینما میں فلم دیکھنے ہی تو گئے تھے نا کہ ڈاکیومینٹری دیکھنے، پھر فلم کا (ڈِس کلیمر اور ٹریٹمنٹ) سب کچھ تو تھا، فلم اصل میں ہے ہی پریوں اور انسانوں کی داستان جس میں ہمت کے ساتھ ”پروا“ کا تڑکہ بھی لگا ہوا ہے۔
فلم کے کئی سیکوئنس ہیں جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گے مثلاً شاہ رخ کی موٹر سائیکل پر کترینا کی گاڑی کے پیچھے جانا، کترینا کی آنکھوں کا پھیلا ہوا کاجل اور شاہ رخ کی ہمت سب فلم دیکھنے والوں کے دل میں اٹک جاتی ہے۔
دوسری طرف فلم اتنی خوبصورت بنی ہوئی کہ ایک جگہ (اسی بھوا کے گھر کھانے والے سین میں) ذیشان ایوب کے بالوں کیلئے جو ”جگاڑ “ لگائی ہے وہ بھی الگ سے نظر آتی ہے ۔
فلم میں کترینا یعنی ”ہیر بدنام “کے بے وفا بوائے فرینڈ کا کردار ابھی دیول نے نبھایا جن کا فلم میں نام، انجام، کام اور اسٹائل سب رنبیر کپور جیسا دکھایا گیا
فلم کے مکالمے جتنے مزیدار، دلچسپ اور زندگی سے قریب کے ہیں اتنے ہی اچھی طرح ادا بھی کیے گئے ہیں یہاں وہ مکالمے لکھے تو ان مکالموں کا مزا آدھا رہ جائے گا۔ گانے سننے میں شاید سپرہٹ نا ہوں لیکن پکچرائز بہت ہی اعلیٰ کیے گئے ہیں۔
شاہ رخ اور انوشکا کا ”میرے نام تو“ بالی وڈ کی تاریخ کے چند بہترین اور رنگین رومانٹک گانوں میں سے ایک ہے، اس گانے کو پورے شاہ رخ خان کے کیریئر کیلئے چاند کہا جاسکتا ہے جہاں بہت سارے رومانٹک گانوں کے تارے بھرے ہوئے ہیں۔
کترینا کا کردار مختصر صحیح لیکن ٹھگز جتنا کم بھی نہیں لیکن یہ کردار بھرتی یا خوبصورتی کا نہیں کیونکہ اسے تو لکھا ہی کترینا کو دیکھ کر گیا ہے۔
کترینا کتنی زیادہ خوبصورت ہیں لیکن اس فلم میں اپنی تمام فلموں سے اور بہتر نظر آئیں شاید ’ایک تھا ٹائیگر‘ کی ”زویا “ سے بھی زیادہ۔
زیرو بنانے والوں نے کترینا کیلئے ایک تھا ٹائیگر کی زویا کے کاجل کو چرایا اور پھر پھیلا کر اور خوبصورت بنایا، کترینا کی انٹریاں، اسٹائل اور مکالموں نے بھی خوب ساری سیٹیاں اور تالیاں سمیٹیں، فلم میں کترینا یعنی ”ہیر بدنام “کے بے وفا بوائے فرینڈ کا کردار ابھی دیول نے نبھایا جن کا فلم میں نام، انجام، کام اور اسٹائل سب رنبیر کپور جیسا دکھایا گیا۔
فلم کے بارے میں ریویوز کیسے بھی ہوں یہ ایک مکمل ”پیسہ وصول“ اور” ویری فلمی“ ہے جو بہت بڑے اسکیل اور بجٹ کے ساتھ بڑے پردے کیلئے بنائی گئی ہے
فلم کی کہانی لکھنے والوں نے فلم لکھتے ہوئے ”حدود اورقیود“ کی پروا نہیں کی ہر قانون ہر اصول کو بہت آسانی اور پیار سے توڑا جس پر مکالموں سمیت اسکرین پلے، سینما ٹوگرافی، اداکاری اور کپتان ڈائریکٹر نے ایسا تڑکا لگایا کہ فلم کا جادو سر چڑھ کر بولا۔
شاہ رخ نے ”بھوا “ بن کر جو ”جوا“ کھیلا ہے اس میں وہ سو فیصد کامیاب ہوئے ہیں، یہ غالباً شاہ رخ خان کی آخری فلم ہوگی جس میں وہ بطور ہیرو بہترین اداکار کا پاپولر یا کریٹکس ایوارڈ جیت پائیں گے۔
شاہ رخ بطور بھوا فلم کی جان ہیں، بڑے عرصے بعد شاہ رخ خان ” فارم“ میں نظر آئے لیکن اس وقت تمام خان ہیروز پر برا وقت چل رہا ہے اور شاہ خ خان تو خیر عرصے سے اس برے وقت کے ساتھی بنے ہوئے ہیں۔
برا وقت کی اور بڑی مثال کیا ہوگی کہ جب وقت اچھا ہو تو بڑے بڑے ناقدین” چنئی ایکسپریس“ اور” ہیپی نیو ایئر“ کی جی بھر کر تعریفیں کرتے ہیں اور وہ فلمیں بزنس بھی اچھا خاصا کرتی ہیں اور جب وقت برا ہو تو یہی ناقدین ”زیرو“ جیسی بڑی فلم کو مسترد کردیتے ہیں۔
زیرو شاہ رخ کو بطور ہیرو تو میدان میں واپس لائی لیکن ساتھ ہی بطور پروڈیوسر کے فائدہ بھی پہنچایا ہے۔ یہ فلم ٹی وی کیلئے بھی بہترین ہوگی اور جب بھی ٹی وی پر ریلیز ہوگی ریٹنگز کے نئے ریکارڈز بنائے گی۔
انوشکا شرما نے ایک بار پھر چیلنجنگ کردار ادا کیا اور اپنی پوری جان لگادی وہ واقعی ویرات کوہلی کی حقیقی جوڑی دار ہیں دونوں اپنے کیریئر میں اپنا سب کچھ جھونک دیتے ہیں۔
انوشکا ہی فلم کی واحد ہیروئن بھی ہیں جب کہ ذیشان ایوب، ٹگمانشو، مادھون نے بھی اپنے کردار ٹھیک ٹھاک ادا کیے ہیں۔
فلم کے بارے میں ریویوز کیسے بھی ہوں یہ ایک مکمل ”پیسہ وصول“ اور” ویری فلمی“ ہے جو بہت بڑے اسکیل اور بجٹ کے ساتھ بڑے پردے کیلئے بنائی گئی ہے۔
فلم میں نفرت اور نفرت کرنے والوں کیلئے کچھ نہیں بس بہت سارے جذبات، مسکراہٹ، محبت اور ساتھ میں انٹرٹینمنٹ، انٹرٹینمنٹ اور بس انٹرٹینمنٹ ہے اور یہ فلم ایک بار نہیں بار بار دیکھنے والی فلم ہے کیونکہ اس کے بعد شاید بالی وڈ کا کنگ آف رومانس اسکرین پر اس طرح کا رومانس دوبارہ نہیں کرسکے۔
نوٹ :
1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا اور اُس فلم کیلئے کام کرنے والا، فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے ۔
2۔۔ ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے، فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما پر ہی آتا ہے، آ پ کے ٹی وی ، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔
3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔
4۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں لہٰذا آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔
5۔۔ فلم کے ہونے والے باکس آفس نمبرز یا بزنس کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے جو کچھ مارجن کے ساتھ کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوسکتا ہے۔
6۔۔ فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں، بڑی سے بڑی فلم ناکام اور چھوٹی سے چھوٹی فلم کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایک جیسی کہانیوں پر کئی فلمیں ہِٹ اور منفرد کہانیوں پر بننے والی فلم فلاپ بھی ہوسکتی ہیں۔کوئی بھی فلم کسی کیلئے کلاسک کسی دوسرے کیلئے بیکار ہوسکتی ہے۔
7۔۔ فلم فلم ہوتی ہے، جمپ ہے تو کٹ بھی ہوگا ورنہ ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال، ڈھائی سو سال، ڈھائی سال، ڈھائی مہینے، ڈھائی ہفتے، ڈھائی دن تو دور کی بات دوگ ھنٹے اور اکتیس منٹ بھی سما نہیں سکتے۔