بلاگ
Time 21 جنوری ، 2019

ایک مشکل فیصلہ وزیراعظم عمران خان کا منتظر

وزیراعظم عمران خان کو ایک ممکنہ مشکل صورت حال کا سامنا ہے کیوں کہ انہیں گریڈ 21 کے ایک افسر کی گرفتاری سے متعلق حتمی فیصلہ کرنا ہے۔ یہ افسر وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے )کو انسانی اسمگلنگ کے ایک بڑے کیس میں مطلوب ہے۔

ملک کے سب سے اہم تحقیقاتی ادارے کو مطلوب ایک ایسے افسر کو جسے حالیہ دنوں میں ایف آئی اے کی حریف سمجھی جانے والی ایجنسی میں اہم عہدے پر فائز کیا گیا ہے ، کے بارے فیصلہ کرنا عمران خان کی حکمرانی کے لیے ایک امتحان ہے ۔ ملک کے یہ دونوں اہم ترین ادارے وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں جس کا قلم دان فی الوقت وزیراعظم کے پاس ہے۔

انتہائی با خبر ذرائع کے مطابق جب سے مذکورہ افسر کو ترقی دے کر وزارت داخلہ کے ماتحت دوسرے اہم ادارے میں تعینات کیا گیا ہے ، دونوں ایجنسیاں میں ایک خاموش چپقلش ہے ۔ اس سے پہلے یہ دونوں ادارے نہایت اچھے ماحول میں باہمی اعتماد کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ اس پورے معاملے نے ایک بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کس طرح ایک بڑے سرکاری افسر کو ایف آئی اے کی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود ترقی دے کر اہم عہدے پر تعینات کر دیا گیا۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے ایک ایسے شخص کے اہم عہدے پر فائز کرنے کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں جس نے ماضی میں بدعنوانی کے ایک بڑے مقدمے میں خود کو نیب کے ریکارڈ میں مرا ہوا دکھایا تھا۔

پاکستان کے فضائی ، سمندری یا زمینی راستوں سے انسانی اسمگلنگ کا دھندہ کوئی نئی بات نہیں۔ اس کا آغاز 80 کی دہائی میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد ہوا۔ 80 کے اختتام یا 90 کے اوائل میں اس وقت کی امریکی حکومت نے ایک خفیہ دستاویز میں حکومت کو پاکستان کی دو اہم خفیہ اداروں کے کم از کم چار افسران کے انسانی اسمگلنگ میں مبینہ ملوث ہونے سے آگاہ کیا تھا۔ دستاویز کی کاپی آج بھی میرے پاس موجود ہے جس میں کہا گیا کہ غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے امریکا لوگوں کو اسمگل کیا جا رہا ہے جن کی اکثریت کو کراچی کے ہوائی اڈے سے بھیجا گیا۔ تاہم ان طاقتور افسران پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا اور نا انسانی اسمگلنگ کے تدارک کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے گئے جس کے نتیجے میں پاکستان انسانی اسمگلنگ کا مرکز قرار دیا جانے لگا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران بے نظیر انٹرنیشنل ایئر پورٹ اسلام آباد سے 10 ہزار سے زائد افراد نے جعلی سفری دستاویزات پر سفر کیا ۔ ان افراد کو ایف آئی اے امیگریشن عملے اور ہیڈ کواٹر میں بیٹھے چند افسران کی ملی بھگت سے بھیجا گیا۔ یہ عقدہ

2014 میں کھلا جب برطانیہ کے ہائی کمیشن نے پاکستان کو مطلع کیا کہ کچھ ضائع شدہ پاکستانی پاسپورٹ لندن کے ہوائی اڈے کے کچرہ دان سے برآمد ہوئے ہیں۔ تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ ان افراد نے اسلام آباد سے قومی ایئر لائن کی پرواز PK-785 سے سفر کیا۔

تاہم پاکستان حکام نے اس معاملے کو خاص اہمیت نہیں دی لیکن برطانیہ کے اداروں نے پاکستان سے سفر کرنے والوں کے لیے "الرٹ " جاری کر دیا خاص طور سے وہ پاکستانی جو PK-785 سے برطانیہ آئیں ۔ برطانوی خفیہ اہلکاروں کی گہری نگاہ نے کام دکھایا اور لندن کے ایک ایئر پورٹ سے ایک پاکستان اور چند افغان باشندوں کو پاسپورٹ پھاڑ کے کچرے دان میں ڈالتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔ اس واقعے کے بعد برطانوی حکام نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو تنبیہ کرے ہوئے مسافروں کے سفری دستاویزات کے بارے میں مزید ہوشیار اور چوکنا رہنے کی تلقین کی۔ بعد میں برطانوی خفیہ اداروں نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہ کے ایک اہم کارندے کو گرفتا کرلیا جو پاکستان اور برطانیہ کے درمیان سفر کرتا رہا تھا۔ اس شخص پر مقدمہ چلا اور چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔

اسلام آباد میں تعینات اہم تحقیقاتی ادارے کے ایک سینئر اہلکار نے مجھے بتایا کہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے مسافر جعلی سفری دستاویز پر برطانیہ اور اسپین جاتے رہتے ہیں ۔

2014 سے 2016 کے دوران بھی کچھ ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے اور تحقیقات کرنے پر معلوم ہوا کہ منظم منصوبہ بندی کے تحت جعلی پاسپورٹ اور سفری دستاویز پر مسافروں کو امیگریشن اور اسکیننگ کاونٹرز سے بلا روک ٹوک جانے دیا گیا۔ سول ایوی ایشن کے خفیہ کیمروں سے پتا چلا کہ اہلکاروں نے مسافروں کے جہاز میں سوار ہونے کو یقینی بنایا۔

2017 میں برطانیہ کا دباؤ بڑھنے پر ایف آئی اے کی نئی قیادت نے چار اعلیٰ افسران پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی بنانے کے احکامات جاری کیے ۔ تحقیقاتی رپورٹ میں مبینہ انسانی اسمگلروں کی جانب سے ایف آئی اے کے افسر کے بینک اکاؤنٹ میں بھاری رقوم جمع کروانے کا انکشاف ہوا ۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ا سی دوران کچھ افسران نے اسلام آباد ہائی کورٹ سےرجوع کیا لیکن عدالت نے تمام معاملے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مشتبہ افراد کے خلاف تحقیقات جاری رکھنے کے احکامات دیتے ہوئے درخواستیں خارج کر دیں۔

ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی نے اپنی تحقیقات مکمل کرکے انسانی اسمگلروں کے گروہ کے بے نقاب کیا۔ اس گروہ میں کم از کم پانچ ٹریول ایجنٹس بھی شامل تھے جنہوں نے جعلی دستاویز پرسفر کرنے والے افراد کو ایئر لائن کے ٹکٹس جاری کیے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اس معاملے میں ایف آئی اے کے اہلکاروں نے انسانی اسمگلر اور ان کے ساتھ جعلی دستاویزات پر سفر کرنے والوں کے بیرون ملک سفر کو بلا روک ٹوک یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔

اس معاملے کی تحقیقات میں شامل ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے انکشاف کیا کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد انسانی اسمگلنگ میں ملوث مذکورہ افسر کو گرفتار کرنا ہے تاہم وہ ایک اہم تحقیقاتی ادارے میں تعینات ہے اور اس کی گرفتاری کے لیے فائل وزیراعظم کو منظوری کے لیے بھیج دی گئی ہے۔

حکومت نے ملک سے زرمبادلہ کی غیر قانونی ترسیل اور دہشت گردی میں مالی معاونت روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں ۔ پاکستان کے ان اقدامات کو دنیا بھر میں سراہا گیا اورآسٹریلیا میں ہونے والے "ایف اے ٹی ایف" کی حالیہ اجلاس میں ان اقدامات کی تعریف کی گئی۔

اب یہ وقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان ملک سے ہونے والی انسانی اسمگلنگ جیسےناسور کے خلاف بھی سخت اقدامات کریں اور پاکستان کو بدنامی سے بچائیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر ممالگ سے "کئی مطلوب بین الاقوامی دہشت گردوں" کو پکڑا گیا اور تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ یہ دہشت گردوں نے پاکستانی ایئر پورٹس سے جعلی دستاویزات پر سفر کیا۔

وزیراعظم کے انتہائی قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں مبینہ طور پر ایک سینئر افسران پر مشتمل گروپ وزیراعظم عمران خان کو غلط معلومات فراہم کر کے گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس دعوے کی سنگینی اور سچائی کو ماضی قریب میں ہونے والی اس افسر کی مثال سے تقویت ملتی ہے جس نے گرفتاری اور سزا سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو نیب میں "مردہ " ظاہر کیا تھا اور حیرت انگیز طور پر نیب نے اس اطلاع کو بلا تردد اور تحقیق تسلیم کر لیا تھا۔ بعد میں بیوروکریسی کی ملی بھگت سے اس افسر کے دو بارہ تعیناتی کے احکامات جاری کروا لیے گئے اور میڈیا میں خبریں آنے کے بعد عمل درآمد روکا گیا۔

اس گھناؤنے جرم کے خلاف وزیراعظم کی خصوصی توجہ اور احکامات اس لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ برطانیہ کے متعلقہ ادارے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افسران کے بارے معلومات رکھتے ہیں۔ برطانوی حکام 2014 سے اس کیس پر نظر رکھے ہوئے ہیں ساتھ ہی برطانیہ کی عدالت سے اس گروہ کے ایک رکن کو چار سال قید کی سزا بھی ہو چکی ہے۔ تاہم انسانی اسمگلنگ کے روک تھام سے جڑی حکومت برطانیہ کی متعدد درخواستوں کے باوجود اس مکروہ فعل کے تدارک کے لیے ماسوا چند گرفتاریوں کے کچھ خاص اقدامات نہیں کیے گئے۔

مندرجہ بالا تمام حقائق کے پس منظر میں اس معاملے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ ایک ایسے وقت جب پاکستان اور برطانیہ تحویل ملزمان کے باہمی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں ۔ ساتھ ہی منی لانڈرنگ اور دیگر جرائم کے تدارک کو کامیاب بنانے کے علاوہ انسانی اسمگلنگ روکنے کے لیے بھی افسران کی تعیناتی میں سخت جانچ پڑتال کریں کیوں کہ یہ برطانیہ سمیت تمام ممالک کے لیے سب سے زیادہ حساس مسئلہ ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔