24 جنوری ، 2019
جب بھی کہیں 'جعلی پولیس مقابلہ' ہوتا ہے تو ایک پولیس افسر کا نام ذہن میں آتا ہے۔ "راؤ انوار"،
جو سابق ایس ایس پی ملیر تھا ، جس نےحال ہی میں اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ راؤ انوار کا "راج" تین دہائیوں سے زیادہ عرصےپر محیط رہا۔ راؤ کا پولیس کیریئر ان گنت تنازعات اور "متنازع پولیس مقابلوں"کے گرد گھومتا رہا ہے۔
اس کی پشت پناہی اور حمایت کرنے والوں کے نزدیک وہ "جعلی پولیس مقابلوں" کا ماہر تھا جس نے ان گنت دہشت گردوں اور شر پسندوں کو ہلاک کیا۔ لیکن اس کے مخالفین اور قانون پسند افراد اس کے ماوراء عدالت قتل کرنے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ وہ راؤ انوار کو پولیس کے نام پر "کالا دھبہ" سمجھتے تھے ۔
اسے نا پسند کرنے والوں کو یقین ہے کہ راؤ انوار کو تاریخ میں "معصوم انسانوں کا قاتل "کےنام سے یاد کیا جائے گا۔ لیکن خود راؤ انوار کا کہنا تھا کہ اس نے جو کچھ بھی کیا وہ ریاست کی پالیسی تھی جس پر اسے بے شمار "نقد انعامات ، قیمتی تحائف اور اعزازات " سے نوازا گیا۔ راؤ انوار کا کہنا ہے کہ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت نے انہیں ناصرف لاکھوں روپے کے انعامات سے نوازہ بلکہ ان کو اپنی مرضی کی جگہ تعینات بھی کیا گیا ۔ یہ تھا راؤ انور کے کیریئر کا ایک مختصر جائزہ ۔
جب حکومت ریاستی اداروں کو مستحکم کرنے ، پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس پولیس فورس ، موثر عدالتی نظام اور جیلوں کے حالات بہتر کرنے میں ناکام ہو جائے تو راؤ انوار جیسے پولیس اہلکار اور افسران ہی پیدا ہوں گے ۔ آخر نظام کو تو چلنا ہے اور پھر وہ خود اپنا راستہ بناتا ہے۔ ممتاز ماہر قانون اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محترم ناصر اسلم زاہد نے جعلی پولیس مقابلے کے ایک مقدمے میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ "سندھ پولیس کے کچھ افسران اتنے طاقتور ہیں کہ ان کو تبدیل یا معطل نہیں کیا جا سکتا تو ان کے نزدیک اپنے خلاف مقدمات کی کیا اہمیت ہو گی؟ "۔
راؤ انوار تو ریٹائر ہو گیا لیکن نظام اپنی جگہ قائم و دائم ہے جس کی کوکھ سے راؤ انوار جیسے پولیس افسران جنم لیتےرہیں گے۔ ہر بار صاف بچ نکلنے والا جعلی مقابلو ں کا ماہر راؤ انوار آخر کا ر نقیب اللہ محسود کے قتل پر دھر لیا گیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نقیب اللہ کے گھر والے اور قبیلہ اس کے قتل پر اس حد تک چلے جائیں گے اور اس کے لیے صورت حال قابوسے باہر ہو جائے گی۔
راؤ انوار کے سرپرستوں اور پشت پناہی کرنے والوں نے اسے قتل کے اس مقدمے سے بچانے کی سر توڑ کوششیں کیں لیکن ان کی کوئی تدبیر کارگر ثابت نہ ہوئی۔ راؤ نے ملک سے فرار ہونا چاہا مگر ناکام رہا۔ وہ پاکستان کے جڑواں شہر راولپنڈی اسلام آباد میں روپوش رہا مگر کوئی روپوشی بھی اس کے کام نہیں آئی ۔ ہر طرف سے ناکامی اور نا امیدی کے بعد آخر کار اسے عدالت کے رو برو پیش ہوکر گرفتاری دیناپڑی۔ اس کے "ماسٹر" اسے مقدمے سے تو نہیں بچا سکے لیکن اس کو جیل میں بھی نہیں رہنے دیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ جیل کے بجائے اپنے گھر میں آرام و آسائش کے ساتھ رہے۔ نقیب اللہ قتل کیس کی تحقیقاتی رپورٹ سے اس بات کی تصدیق بھی ہو گئی کہ نقیب اللہ اور اس کے تین ساتھیوں کو راؤ انوار اور اس کے "قاتل اسکواڈ" نے بے گناہ قتل کیا ۔
راؤ انوار کے کیریئر کا اختتام بد نامی پر ہوا اور اس کا نام "جعلی پولیس مقابلوں" ماورائے عدالت قتل کرنے والے" اور نفرت کی علامت بن گیا۔ ایک بار اس نے مجھے بتایا کہ " میں نے جو کچھ کیا وہ وہی تھا جس کا مجھے کہا گیااور میں نے "نتائج " بھی دیے۔ خواہ وہ ایم کیو ایم کے شرپسند ہوں یا طالبان کے دہشت گرد سب سے ایک جیسا سلوک کیا۔ "
ایک سینئر پولیس افسر جس کے ماتحت راؤ انوار کام کرتا رہا تھا، نے میرے استفسار پر بتایا کہ "وہ ایک با صلاحیت پولیس افسر تھا اور اس کا خفیہ معلومات کا نیٹ ورک بہت اچھا تھا۔ لیکن پھر وہ کچھ طاقتور ترین سیاسی شخصیات کے ساتھ کچھ مخصوص حلقوں کے قریب ہوتا چلا گیا ۔ یہاں تک ہوا کہ وہ خود کو ماورائے قانون تصور کرنے لگا اور پھر قانون کا محافظ ہی قانون کی دھجیاں بکھیرنے لگا۔ وہ ملکی قوانین اور عدالتوں کی پہنچ سے بالاتر ہو گیا۔ طاقتور حلقوں نے اس سے اپنے ہر جائز اور نا جائز کام کروائے جس کے جواب میں راؤ نے بھی ان کو خوب استعمال کیا۔ "
راؤ انوار اور اس کی خصوصی ٹیم کو "قاتل اسکواڈ" کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا ۔ اگر کچھ راؤ انوا ر اور ان جیسے پولیس افسران جو کچھ برسوں کرتے رہے وہ ریاست کی پالیسی تھی تو یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ پھر راؤ انوار کے علاوہ چوہدری اسلم، عرفان بہادر، توفیق زاہد جیسے افسران اس ہی نظام کی پیداوار تھے۔ ان " قاتل اسکواڈ" کے کچھ افسران اور اہلکاروں کو بعد میں مبینہ طور پر ایم کیو ایم ، لیاری گینگ اور الذوالفقار کے عسکریت پسندوں نے قتل کر دیا تھا۔
تو اس طرح 80 کی دہائی کا ایک عام پولیس افسر اچانک "دہشت" کی علامت بن کر طاقتور ترین سیاسی اشرافیہ اور مخصوص خفیہ حلقوں کا منظور نظر بن گیا۔ راؤ انوار کو ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے "بہادر بچہ" کے لقب سے بھی نوازا ۔
میری راؤ انوار سے پہلی ملاقات 1980 کے اوائل میں ہوئی جب وہ گلشن اقبال پولیس اسٹیشن کا ایس ایچ او تھا۔ میں اس زمانے میں شام کے ایک انگریزی روزنامے سے منسک تھا اور ایڈیٹر کی خواہش پر کسی "زوردار "خبر کی تلاش میں تھا۔ راؤ انوار نے مجھے کراچی کے اس زمانے کے مضافاتی اور آج کے مشہور علاقے سہراب گوٹھ میں ایک بدنام زمانہ"منشیات فروخت" کے اڈے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ اس دھندے کے بڑے بڑے بیوپاری سہراب گوٹھ میں منشیات اور اسلحہ زخیرہ کرتے ہیں۔
ان دنوں اسلحے اور منشیات کی خبریں "شہہ سرخیاں" بنا کرتی تھیں اور میں نے منشیات اور اسلحے کے کاروبار کرنے والے "بلیک پرنس" کی خبر بریک کی تھی۔ پھر تو اخبارات میں اس طرح کی خبریں تسلسل سے شہہ سرخیوں میں شائع ہونے لگیں اور 1986 میں سندھ کے وزیراعلیٰ سید غوث علی شاہ کی منظوری سے" سہراب گوٹھ آپریشن" کیا گیا۔ تاہم آپریشن میں اسمگلروں کے ساتھیوں کی فائرنگ سے سہراب گوٹھ تھانے کے انچارج کے مارے جانے کے بعد اسے روک دیا گیا۔
حکومت کو آپریشن کی سزا دینے کے لیے "اسلحے اور منشیات" فروشوں کی پشت پناہی کرنے والی طاقتور لابی نے کراچی میں لسانی فسادات شروع کروا دیے۔ واضح رہے کہ سہراب گوٹھ میں رہائش پزیر افراد کی اکثریت پشتون زبان بولتی ہے ۔
بعد میں راؤ کو مختلف تھانوں میں انچارج کے عہدے پر تعینات کیا گیا لیکن وہ اس کے لیے متاثر کن یا فائدہ بخش نہیں تھیں۔ تاہم کراچی میں 1992 اور 1994 میں ہونے والے دو پولیس آپریشنوں میں راؤ انوار نے انتہائی فعال کردار ادا کیا ۔ اسی دوران راؤ نے محسوس کیا کہ آگے بڑھنے کے لیے سندھ کے طاقتور سیاستدانوں خصوصاً حکمران جماعتوں کے قائدین کی قربت حاصل کرنا ضروری ہے ۔ اس مقصد کے لیے وہ مرحوم منور سہروردی کی مدد سے پیپلزپارٹی کی قیادت کے قریب ہوا۔ منور سہروردی نے اس کی ملاقات ایک قابل اعتماد پولیس افسر کے طور پر پیپلز پارٹی کی قائد اورسابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور سابق وفاقی وزیر امیر حیدر کاظمی سے کروائی۔ اس کے بعد راؤ انوار کو تیموریہ پولیس اسٹیشن میں ایس ایچ او تعینات کیا گیا ۔ اسی دوران وہ بےنظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری اور ان کے قریبی حلقے کے نزدیک ہو گیا۔ یہ راؤ انوار کی طاقتور حلقوں کے ساتھ قریبی روابط کی ابتداء تھی۔
پھر تو راؤ انوار صحافیوں کا ایک انتہائی قابل اعتماد ذریع بن گیا ۔خاص طور پر جام صادق علی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں کہ جب مشہور وینا حیات کیس اخبارات کی شہہ سرخیاں بنا ۔ اس کیس کی بنیاد پر پولیس کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ڈائریکٹر جنرل سی آئی اے سمیع اللہ مروت اور صوبائی وزیر داخلہ عرفان اللہ مروت کی ہدایات پر پیپلز پارٹی کے خلاف آپریشن کیا گیا جس کا ایک اہم کردار راؤ انوار تھا اور پھر وہ مبینہ طور پر غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہو گیا۔ بعدازاں معاملے کی تحقیقات کے لیے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ریٹائرڈ لفٹیننٹ جنرل شفیق الرحمٰن کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بھی تشکیل دیا تاہم راؤ پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔
80 کی دہائی تک راؤ انوار کا شمار "ہائی پروفائل" پولیس افسران کی فہرست میں نہیں ہوتا تھا، جس طرح اس دور کے پولیس افسران الطاف علی خان، خواجہ ناصر یا اختر صدیقی شامل تھے۔ تاہم 90 کی دہائی میں راؤ انوار کا نام جرائم کی ہر دوسری خبر میں سامنے آنے لگا۔
مئی 1992 میں پاکستان آرمی کی زیرنگرانی کراچی آپریشن شروع ہوا تو ایک درجن کے قریب پولیس افسران کو منتخب کیا گیا جن کے بارے میں سیکیورٹی اداروں کی یقین تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے مبینہ عسکری ونگ کے بارے میں مطلوبہ خفیہ معلومات رکھتے ہیں۔ اسی دوران اندرون سندھ میں ڈاکوؤں اور "72 بڑی مچھلیوں" کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز کیا گیا لیکن 9 معصوم دہاتیوں کے "جعلی مقابلے" میں مارے جانے اور ان کو ڈکیت اور وہشت گرد ظاہر کیے جانے کے بعد آپریشن ختم کر دیا گیا۔ اس جعلی مقابلے میں بھی دیگر جعلی مقابلوں کی طرح بے گناہ دہاتیوں کے قبضے سے اسلحہ اور بارود برآمد کرکے اصل ہونے کا ڈرامہ رچایا گیا جس کا بھانڈہ اخبارات نے پھوڑ دیا۔ واقعہ کی سنگینی کے پیش نظر آرمی چیف جنرل آصف نواز اور وزیر اعظم نواز شریف نے "ٹنڈو بہاول" کا دورہ کیا۔ اس " جعلی پولیس مقابلے" کے اصل حقائق سامنے آنے پر آرمی چیف جنرل آصف نواز نے پوری ٹیم کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے جن میں میجر ارشد بھی شامل تھا ۔ میجر ارشد کو " کورٹ مارشل" کے بعد جرم ثابت ہونے پر پھانسی دے دی گئی ۔
19جون 1992 کو کراچی آپریشن کا اختتام ہوا ۔ اس بات کے باوجود کہ کراچی آپریشن افواج پاکستان کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے معلومات کی بنیاد پر شروع کیا گیا تاہم ایک خصوصی پولیس ٹیم کو اس آپریشن میں اہم کردار سونپا گیا تھا۔ واضح رہے کہ 1989 میں بھی سندھ حکومت کی درخواست پر کراچی میں رینجرز کو تعینات کیا گیا تھا مگر اس کو وہ اختیارات حاصل نہیں تھے جو آج ہیں۔
کراچی میں "دوسرا آپریشن " 1996 میں کیا گیا۔ تاہم 20 ستمبر 1996 کو سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے بیٹے اور اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے ان کی رہائش گاہ 70 کلفٹن کے باہر مارے جانے کے بعد آپرشن روک دیا گیا۔
مخصوص پولیس افسران پر مشتمل ٹیم نے کراچی آپریشن میں ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ان کی کارکردگی کے اعتراف میں بڑے پیمانے پر "نقد انعامات " سے بھی نوازا گیا۔ اس کے بعد سے "جعلی پولیس مقابلوں "میں مبینہ دہشت گردوں اور شرپسندوں کو مارنے کی پالیسی "ریاست کی معمول کی پالیسی" کی حیثیت اختیار کر گئی جس کے نتیجے میں متحدہ قومی موومنٹ کے لاتعداد مبینہ عسکریت پسند ٹھکانے لگا دیے گئے۔ تاہم اس نام نہاد "کولیٹرل ڈیمج " یا "نادانستہ نقصان" کے نظریے کےتحت ان گنت بے گناہ اور معصوم کارکن بھی نشانہ بن گئے۔
9/11 منظر نامے کے بعد راؤ انوار نے ریاست کو قائل کیا وہ القائدہ ، طالبان اور ان سے منسلک فرقہ پرست تنظیم کے دہشت گردوں کو "ٹارگٹ" کرسکتا ہے۔ منظوری ملنے پر اس نے کراچی کے مضافاتی علاقوں میں کئی ایسی کارروائیوں کی قیادت کی جس میں مبینہ طالبان ، لشکر جھنگوی اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔
راؤ انور کا شمار چوہدری اسلم اور ان چند دیگر پولیس افسران میں ہوتا ہے جنہیں انعام کے طور پر "بھاری رقومات" دی گئیں۔ ایک نجی گفتگو میں راؤ انور نے اعتراف کیا کہ"کراچی آپریشن"کے دوران بہت سے پولیس افسران نے ایم کیو ایم کے بے گناہ کارکنوں کو بھی قتل کیا جن کا مجرمانہ سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن خفیہ اداروں کی بنائی فہرست میں ان کو مجرم ظاہر کیا گیا تھا ۔ پولیس اہلکاروں نے نقد انعام کے لالچ میں ان کو قتل کر دیا۔
اس سلسلے کی آخری کارروائی کا آغاز 2013 ء ہوا اور راؤ نے ایک بار پھر ایم کیو ایم کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ لیکن ماضی کے برعکس اسے وہ سیاسی پشت پناہی نہیں مل سکی جس کی وہ امید کر رہا تھا کیوں کہ اوپر تلے کی جانے والی دو " خود ساختہ کارروائیوں" پر راؤ انوار کو شرمندگی اٹھانی پڑی تھی ۔ پہلی کارروائی میں راؤ نے دعوی کیا تھا کہ اس نے بھارتی خفیہ ایجنسی "را" کے کراچی میں بدامنی پھیلانے کی منصوبہ بندی کرنے والے گروہ کے تین افراد کو گرفتار کیا ہے ۔ گرفتار افراد کو ایم کیو ایم لندن کے عسکریت پسند ظاہر کیا گیا تھا۔ بعدازاں ، عدالت نے راؤ کے اس دعوے اور الزامات کو مسترد کر تے ہوئے ملزمان کو رہا کردیا تھا۔ دوسری کارروائی میں راؤ انوار نے سندھ اسمبلی میں قائد حذب اختلاف اور ایم کیو ایم پاکستان کے اہم رہنما خواجہ اظہار الحسن کو ان کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔ اس خود ساختہ کارروائی پر بھی راؤ کو اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے سرزنش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
لیکن ہر گزرتے سال یہ بے لگام پولیس افسران اور اہلکاروں کی پارٹی طاقتور سے طاقتورترین ہوتی گئی۔ راؤ انوار اینڈ کمپنی کو حکومت و ریاست کے تمام اداروں کی غیر متزلزل حمایت حاصل رہی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس وقت سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ناصر اسلم زاہد کو احکامات دینے پڑے کہ ان پولیس افسران اور اہکاروں کو کراچی میں تعینات نہیں کیا جائے۔ جسٹس ناصر اسلم نے لوگوں کو "ماورائے عدالت " قتل کرنے کے خلاف کئی احکامات جاری کیے لیکن ان کے احکامات کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور راؤ انوار سمیت "ماورائے عدالت قتل " کرنے والے بے لگام پولیس اہلکاروں کو کوئی " لگام" نہیں ڈال سکا ۔
تاہم بعد میں کراچی آپریشن کے 100 کے لگ بھگ اہم کرداروں کو مختلف کارروائیوں میں قتل کر دیا گیا۔ ان افسران میں بہادر علی، ذیشان کاظمی اور دیگر شامل تھے۔ قتل کی تحقیقاتی رپورٹس میں ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کو ان کارروائیوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ تاہم کچھ کارروائیوں کی ذمہ داری "الذوالفقار" ، لیاری گینگ، اور طالبان پر بھی ڈالی گئی۔
2013 میں شروع کیے گئے آپریشنوں میں بھی راؤ انوار نے اہم کردار ادا کیا لیکن اس بار پولیس کو پیچھے رکھ کر رینجرز کو اضافی اختیارات کے ساتھ آگے کیا گیا۔
اس کے باوجود راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو ریاستی اداروں کی "ان دیکھی حمایت" حاصل رہی اور اس نے کالعدم فرقہ وارانہ تنظیم اور طالبان کے دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم لندن کے عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔
پھر وقت نے کروٹ بدلی اور پہلی بار راؤ کواپنے ہی ادارے کے ساتھ اعلیِ عدالیہ کی پر زور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کا نتیجہ اس کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کی صورت میں نکلا۔
راؤ انور اور دیگر "ماورائے عدالت" ہلاک کرنے والے "قاتل پولیس افسران" کی کہانی درحقیقت ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس میں ریاستی ادارے ملزمان اور مجرمان کو ملکی قوانین اور عدالتی نظام کے تحت سزا دلوانے کے بجائے "خود ساختہ عدالت" لگا کر کسی کی بھی موت کا پروانہ جاری کر دیتے ہیں۔
راؤ انوار کا دور تو ختم ہوا لیکن مستقبل میں راؤ انوار جیسے "ماورائے عدالت قتل" کرنے والے افسران کے آگے "بند " باندھنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ اور پارلیمان کو مل کر حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔ اور اگر ریاست "ماورائے عدالت قاتلوں"اور "جعلی پولیس مقابلوں" کی پشت پناہی ، حمایت اور معاونت جاری رکھے گی تو پھر ایک راؤ انور کے بعد دوسرا اس کی جگہ پر فائز کیا جاتا رہے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔