Time 26 جنوری ، 2019
پاکستان

سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندانوں کو اسلام آباد بلانے کا معاملہ معمہ بن گیا


لاہور: سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندانوں کو اسلام آباد بلانے کا معاملہ معمہ بن گیا۔

سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندانوں کو اسلام آباد بلانے پر ایوانِ صدر، سینیٹ ترجمان اور قائمہ کمیٹی داخلہ سمیت پولیس کے الگ الگ مؤقف سامنے آگئے ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کو وفاقی دارالحکومت بلانے کی ذمہ داری کوئی بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔

پولیس کا مؤقف

پولیس حکام کے مطابق قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے ذیشان اور جلیل کے خاندان والوں کو طلب کیا تھا، ذیشان اور جلیل کے خاندان والوں کو پولیس لے کر اسلام آباد گئی تھی، قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی جانب سے دونوں خاندانوں کو بلائے جانے کا لیٹر موجود ہے۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ذیشان اور جلیل کے خاندان والے سینیٹ کی بلڈنگ میں موجود رہے لیکن کمیٹی نے اندر نہیں بلایا۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی جانب سے کسی کو بھی طلب کیا جائے تو پولیس ہی لےکر جاتی ہے جب کہ صدرِ مملکت اور چیئرمین سینیٹ کے بلانے پر کبھی پولیس کسی کو لے کر نہیں گئی۔

رحمان ملک کی تردید

دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ کے چیئرمین رحمان ملک نے سوشل میڈیا پر بیان میں پولیس کے مؤقف کو مسترد کردیا ہے۔


ٹوئٹر پر اپنے بیان میں رحمان ملک نے کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ نے سانحہ ساہیوال کے لواحقین کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا، ساہیوال واقعے کے متاثرین اور مقامی کونسلرز کو آئندہ ہفتے نوٹسز جاری کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی رکن قومی وصوبائی اسمبلی کو کمیٹی اجلاس میں بلایا جائے گا، وقوعے کے متاثرین کو سننا کمیٹی کے ایجنڈے میں پہلے سے شامل ہے۔

رحمان ملک کے مطابق متاثرین کو لاہور سے اسلام آباد لانے کیلئے ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جارہا ہے۔

اگر نہیں ملنا تھا تو کیوں بلایا: جلیل

اس سے قبل گزشتہ روز سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے خلیل کے بھائی جلیل کا کہنا تھا کہ ان کی فیملی کو صدر مملکت عارف علوی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملاقات کے لیے اسلام آباد بلا کر خوار کیا، اگر وہ نہیں ملنا چاہتے تھے تو بلایا کیوں تھا؟ 

ایوانِ صدر اور سینیٹ ترجمان کی بھی تردید

دوسری جانب ایوان صدر اور سینیٹ ترجمان نے گذشتہ روز متاثرہ فیملی کے ساتھ ملاقات طے کیے جانے کی تردید کردی۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ مقتول خلیل کا خاندان صدر مملکت عارف علوی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملاقات کے لیے اسلام آباد روانہ ہوا، تاہم بعدازاں  صدر عارف علوی کی کراچی آمد اور چیئرمین سینیٹ کی بلوچستان روانگی کی رپورٹس بھی سامنے آئیں۔

لاہور واپسی پر اپنے وکیل شہباز بخاری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کے سربراہ جلیل کا کہنا تھا کہ 'پولیس ان کی فیملی کو صدر عارف علوی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملوانے اسلام آباد لے کرگئی'۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'ساری رات ہم سے بیان لکھواتے رہے، پھر سارا دن سڑکوں پر گھماتے رہے، پھر معلوم ہوا کہ صدر مملکت تو کراچی اور چیئرمین سینیٹ بلوچستان چلے گئے ہیں'۔

خلیل کا مزید کہنا تھا کہ 'ان کا تماشا بنایا جا رہا ہے، ہمیں فون کرکے ملاقات کے لیے بلوایا گیا تھا، اگر نہیں ملنا تھا تو ہمیں بلایا کیوں تھا، ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا'۔

دوسری جانب وکیل شہباز بخاری کا کہنا تھا کہ 'ملزمان سیکیورٹی حصار میں ہیں جبکہ انہیں کوئی سیکورٹی فراہم نہیں کی گئی'۔

وکیل کا مزید کہنا تھا کہ وہ 7 دن کا وقت دے رہے ہیں، جے آئی ٹی اپنی رپورٹ مکمل کرے، ورنہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔

ایوان صدر اور ترجمان سینیٹ کی وضاحت

ایوان صدر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ 'صدر عارف علوی کی سانحہ ساہیوال کے لواحقین سے کوئی ملاقات طے نہیں تھی'۔

ترجمان ایوان صدر کا مزید کہنا تھا کہ 'متاثرہ خاندان کو صدر سے ملاقات کے لیے اسلام آباد کون لایا، پنجاب حکومت کو اس بات کی تحقیقات کی ہدایت کردی گئی'۔

دوسری جانب ترجمان سینٹ نے بھی ملاقات طے ہونے کی تردید کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ 'چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے متاثرہ خاندان کو نہیں بلایا گیا اور نہ ہی اس خاندان کی جانب سے ملاقات کے لیے کوئی پیغام ملا'۔

ترجمان سینیٹ کا کہنا تھا کہ 'حکومت پنجاب سے اس معاملے سے متعلق وضاحت لی جائے گی'۔

سینیٹ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ 'متاثرہ خاندان کو کوئی تکلیف ہوئی ہے تو ان سے معذرت کی جاتی ہے'۔

ساہیوال واقعہ

واضح رہے کہ 19 جنوری کی دوپہر پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک مشکوک مقابلے کے دوران گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں میاں بیوی اور ان کی 13 سالہ بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور تین بچے بھی زخمی ہوئے جبکہ 3 مبینہ دہشت گردوں کے فرار ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیئے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا، تاہم بعدازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک شخص ذیشان کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔

میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیا۔

دوسری جانب واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی، جس کی رپورٹ میں مقتول خلیل اور اس کے خاندان کو بے گناہ قرار دے کر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا۔

مزید خبریں :