بلاگ
Time 14 فروری ، 2019

پی ٹی آئی بیانیہ 'ہوا' ہوگیا؟

اگر وزیراعظم واقعی احتساب کے معاملے پر سنجیدہ ہیں تو انہیں احتساب کے خود فریبی نعرے سے باہر نکل کر احتسابی ادارے کو مضبوط اور اہل بنانا ہوگا۔ فوٹو: فائل

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان مسند اقتدار پر فائز ہونے سے پہلے اور اس کے بعد بھی مسلسل احتساب کا نعرہ بلند کرتے آئے ہیں لیکن احتساب کا دائرہ، اس کے خدوخال، جزیات اور حدود کیا ہوں گی، اس کے تعین میں وہ ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔

25 جولائی کے انتخابات میں کامیابی کے بعد بننے والی تحریک انصاف کی حکومت کے  قیام کے فوری بعد اگر نیب نے کوئی بڑی گرفتاری کی تو وہ شہباز شریف کی تھی، جس نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس کے بعد گمان کیا جارہا تھا کہ شاید نیب کے پاس ان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں جسے سامنے رکھتے ہوئے شہباز شریف پر ہاتھ ڈالا گیا لیکن معاملہ جب عدالت تک پہنچا تو 3 ریمانڈ کے بعد نیب کو چوتھا ریمانڈ نہ مل سکا اور یوں شہباز شریف 4 ماہ اور 14 روز کے بعد رہائی پانے میں کامیاب رہے۔

اگر نیب صرف الزام کی بنیاد پر کسی کو بھی گرفتار کر لے تو اس صورت میں عمران خان کے احتساب کے نعرے سے سیاسی بو آنے لگتی ہے اور ایسا ہی کچھ شہباز شریف کے کیس میں دیکھا گیا، شہباز شریف کی رہائی کے بعد عمران خان کے احتساب کے بیانیے کے خلاف نہ صرف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آئے گا بلکہ نیب قانون میں ترمیم کا مطالبہ بھی زور پکڑنے لگے گا۔

شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد تمام اپوزیشن جماعتوں میں کم از کم اس بات پر اتفاق سامنے آیا کہ احتساب کے نام پر من پسند گرفتاریاں قبول نہیں کی جائیں گی لیکن حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان مختلف تقاریب اور اجتماعات میں اپنے خطاب میں کئی بار اس بات پر زور دے چکے کہ احتساب سے انہیں کوئی پیچھے نہیں ہٹا سکتا اور احتساب کے معاملے پر وہ کسی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

اگر وزیراعظم واقعی احتساب کے معاملے پر سنجیدہ ہیں تو انہیں احتساب کے خود فریبی نعرے سے باہر نکل کر احتسابی ادارے کو مضبوط اور اہل بنانا ہوگا تاکہ وہ کسی کا احتساب کرسکے۔

شہباز شریف کی گرفتاری ہو یا سعد رفیق کی، شرجیل میمن ہوں یا ڈاکٹر عاصم حسین، گرفتار ہونے والے سیاستدانوں پر کروڑوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگا کر انہیں گرفتار تو کرلیا گیا لیکن ان کے خلاف نیب کے تفتیشی حکام چالان پیش نہ کرسکے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یا تو نیب کے پاس مطلوبہ شواہد موجود نہیں یا تفتیشی معیار اتنا کمزور ہے کہ ملزمان کے خلاف عدالتوں میں حتمی چالان پیش نہیں کیا جاتا۔

وزیراعظم کے احتساب کے نعرے میں سب سے بڑی رکاوٹ نیب کی انکوائری کا طریقہ ہے، جو گرفتاریاں تو ڈال دیتا ہے لیکن عدالت میں ملزمان کے خلاف شواہد پیش نہ کرنے اور ملزمان کی ضمانت ہونے پر اسے سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے عمران خان کے احتساب کے نعرے سے سیاسی بو آتی ہے۔

اگر وزیراعظم ملک میں احتساب کا عمل چاہتے ہیں اور ملک کی لوٹی گئی دولت واپس خزانے میں لانے کے خواہاں ہیں تو اس کے لیے انہیں مخالفین کو اپنی تقریروں میں چیلنج دینے کے بجائے اداروں اور ان کی ساکھ کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے ورنہ اسی طرح سیاسی مخالفین کو نیب کے ذریعے گرفتار کرایا جاتا رہے گا اور مقررہ اہداف کے حصول کے بعد ضمانتیں ہوتی رہیں گی اور اس پورے عمل میں ملکی ادارے بے توقیر ہوتے رہیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔