سید محمد تقی

— سید محمد تقی

سید محمد تقی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، وہ پاکستان ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایک صحافی اور ایڈیٹر سے زیادہ دور رس سوچ اور فکر کے حامل فلسفی کی حثیت سے مشہور ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی بھر کے تدبر اورتحقیق کا خلاصہ اپنی مشہور کتاب “ تاریخ اور کائنات۔ میرا نظریہ” میں پیش کیا ہے۔جس میں انہوں نے ایک جامع اور مربوط نظام پیش کیا اور اردو لکھنے والوں میں پہلے صاحب نظام فلسفی کا مرتبہ حاصل کیا۔ 

مجھے ان کے اس مرتبے اور مقام کا علم ان کے جنگ سے الگ ہونے کے بہت بعد میں ہوا۔ میرا یہ سوچ کر آج بھی سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ مجھ جیسے ایک کم علم کو کتنے بڑے فلسفی اور مفکر کے ساتھ کام کرنے، ان کی مجلس میں بیٹھنے اور گفتگو کرنے کا اعزاز اصل ہو چکا ہے۔ جب جنگ میں میری شمولیت ہوئی،اس وقت وہ اس کے ایڈیٹر اور یوسف صدیقی ایگزیکٹو ایڈیٹر تھے۔ جنگ کا اداریہ وہی لکھتے تھے۔ ان کے اداریئے بہت ہی فکر انگیز اور ملک کے حالات اور حکومتی پالیسیوں پر بےلاگ جائزے پر مشتمل ہوتے، جن کے اثرات اقتدار کے ایوانوں میں محسوس کیے جاتے اور اصلاح احوال کی بنیاد بنتے۔ اگرچہ اداریہ نویسی کے لئے خالد فاروقی بھی موجود تھے لیکن اہم سیاسی موضوعات پر زیادہ تر وہی اداریہ لکھتے تھے۔

سید محمد تقی کا تعلق یو پی انڈیا کے ایک علم پرور اور مردم خیز شہر آمروہہ کے ایک اعلی تعلیم یافتہ خانوادے سے تھا۔ پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر اور قطع نویس رئیس امروہوی ان کے بڑے اور ایسی ہی شہرت رکھنے والے شاعر جون ایلیا ان کے چھوٹے بھائی تھے۔ان کے ایک اور چھوٹے بھائی سید عباس امروہوی بھی اردو ادب کی مشہور شخصیت تھے۔جو سب رنگ ڈائجسٹ میں اردو ادب کے رنگ برنگ کے موتی بکھیرتے تھے۔ ان کے والد شفیق حسن ایلیا علم نجوم کے ماہر، مشہور شاعر اور اپنے دور کے تمام علوم پر دسترس رکھتے تھے۔ اس علمی ماحول نے انہیں بچپن ہی سے کتاب و مکتب اور مختلف زبانیں سیکھنے کی طرف مائل کیے رکھا۔ ان کا گھر تو اردو کی یونیورسٹی کا درجہ رکھتا تھا۔ جہاں اس کی ہر صنف کی باریکیوں پر بات ہوتی۔ لیکن انہوں نے بہت جلد انگریزی،عربی اور فارسی پر بھی مکمل عبور حاصل کر لیا تھا۔ ان کے مطالعے کا اصل میدان فلسفہ تھا اور آگے چل کر انہوں اسی میں اپنا مقام بنایا۔جنگ اخبار میں ان کے ہم پیشہ صحافی ان کے علمی مرتبے کو اچھی طرح جانتے تھے اور ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔احترام کا یہی جذبہ سید تقی سے ان کی بے تکلفی میں مانع تھا ۔لیکن تقی صاحب ہم سب سے بہت ہی شفقت کے ساتھ اچھی طرح ملتے۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی ان کے اورادارتی یا غیر ادارتی عملے کے درمیان کبھی کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آیا ہو۔

وہ 1969 کے آخر تک جنگ کے ساتھ وابستہ رہے۔مجھے ان کے ساتھ کوئی تین سال کام کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔بعد میں وہ جنگ سے مستعفی ہو گئے تھے۔ان کے استعفی کا سبب کراچی کے طلبہ کا ایک احتجاجی مظاہرہ بنا تھا۔جو کسی غلط خبر کی جنگ میں اشاعت کے خلاف کیا گیا تھا۔ ایڈیٹر کی حثیت سے ان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان کے خلاف نعرے لگائے جارہے تھے جس کو انہوں نے دفتر کی کھلی کھڑکی سے دیکھ اور سن لیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے ان کا نام لے کر اس طرح ان کے خلاف نعرے لگائے تھے جو ان کی خود دار طبیعت کو پسند نا آئے اور انہوں نے اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے فوری طور پر میر خلیل الرحمن کو استعفی بھیج دیا، جس کو واپس لینے پر زور دیا گیا مگر وہ نا مانے اور ان کا استعفی منظور کر لیا گیا۔ اس طرح ان کی صحافت کےطویل دور کا باب ختم ہوا۔ جس کا آغاز انہوں نے مرادآباد سے ماہنامہ ہمسفر سے کیا تھا۔ جنگ میں شمولیت سے قبل دہلی میں حریت اور اور میرٹھ کے ایشیا میں بھی کام کر کے وہ صحافت کے میدان میں اپنی پہچان بنا چکے تھے۔ ان کے صحافتی مشن کو ان کے لائق صاحبزادے سید حیدر تقی نے جاری رکھا ہوا ہے اور اس وقت وہ جنگ کے ادارتی صفحے کے انچارج ہیں۔ یہ وہی کام ہے جو ان کے والد آج سے نصف صدی پہلے کر رہے تھے۔ ایک طرح سے وہ اپنے والد کے جنگ میں صحیح معنوں میں گدی نشین ہیں۔

جنگ سے علیحدگی کے بعد سید تقی نے اپنی توجہ مطالعہ، تصنیف و تالیف اور علمی اور فکری مجالس میں شرکت پر مرکوز کر لی۔مجھے کہی بار کراچی کے مشہور علاقے گارڈن ایسٹ میں ان کے وسیع و عریض گھر میں جانے اور ملنے کا اتفاق ہوا۔جہاں کاعلمی ماحول دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ان کے گھر کے قریب ہی پاکستان کے اس دور کے بہت بڑے وکیل خالد اسحاق ایڈوکیٹ بھی رہتے تھے۔ ان کا گھر ایک تو ملک بھر میں سب سے بڑی ذاتی لائبریری اور دوسرے کراچی بھر کے منتخب دانشوروں کی ہفتہ وار فکری نشست کی وجہ سے مشہور تھا۔جو برسوں سے ہر اتوار کو بڑی پاپندی کے ساتھ خالد صاحب کی وفات تک جاری رہی۔ اس مجلس میں شرکت پر کوئی پاپندی نہیں تھی۔مختلف الخیال افراد حالات حاضرہ اور دیگر موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کرتے۔سید تقی اس علمی مجلس کا لازمی حصہ اور سب سے نمایاں شریک کار تھے۔وہ ہر موضوع پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور دو ٹوک رائے دیتے۔ مجھے بھی ان مجالس میں جانے اور سید تقی کی علمی بات چیت اور باہمی مکالمے کو سننے کا اعزاز حاصل ہے۔ مجھے یاد ہئے کہ اس مجلس میں سید محمد تقی کے علاوہ،مولانا محمد طاسین،میجر ابن الحسن، محمد صلاح الدین ایڈیٹر تکبیر،میجر جنرل(ریٹائرڈ) غلام عمر،سعید احمد،تاجر ریاض شفیع،مولانا عمر عثمانی۔پروفیسر سلیم قدیر، محمود احمد مدنی، کالم نگار نصرت مرزا اور ڈاکٹر اختر سعید بھی شریک ہوتے تھے۔

سید محمد تقی کی دینی اور دنیاوی علوم سے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے۔کہ وہ ان سے ناواقفیت کو ذاتی تو ہین محسوس کرتے تھے۔ان علوم کی وسیع پیمانے پر توسیع اور ابلاغ کے لئے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ دنیا بھر میں شائع ہونے والی تمام بڑی کتابوں کو اردو میں منتقل کیا جائے۔ انہوں نے اس کا آغاز کارل مارکس کی مشہور زمانہ کتاب Das Capital کا اردو میں ترجمہ کر کے کیا۔ جو پہلی بار 1960 میں شائع ہوئی اور اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ ان کو اس کا ترجمہ کرنے کی ترغیب انجمن ترقی اردو کے مولوی عبدالحق نے دی تھی -انہوں نے معاشیات،سیاسیات،عمرانیات،الہیات،تاریخ اور فلسفے کے موضوعات پر متعدد کتب لکھی ہیں۔ جو ان کے وسیع مطالعے اور علم کا بہت بڑا حوالہ ہیں۔ ان کی مشہور کتابوں میں “روح اور فلسفہ”،”تاریخ اورکائنات۔ میرا نظریہ”، “منطق،فلسفہ اور تاریخ کا تصور”،”پراسرار کائنات”،”ہندوستان-پس منظر اور پیش منظر” اور “کربلا-تہزیب کا مستقبل”شامل ہیں۔ وہ فلسفہ کی عالمی گانگریس کے رکن بھی تھے اور اس کے ہر چا سال بعد اجلاسوں میں پاکستان کی نمائندگی کے علاوہ اس کے صدر کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے تھے۔اس کانگریس کے اجلاس امریکہ اور یورپ کے کسی ملک میں منعقد ہوتے تھے۔ ایسے ہی ایک اجلاس کے موقع پر انہوں نے اپنے پسندیدہ عالمی دانشور اور فلسفی برٹرینڈ رسل سے بھی ملاقات کی تھی۔ جنگ کی کہکشان کا یہ روش ستارہ زندگی کی82 بہاریں مکمل کرنے کے بعد جون 1999 کو غروب ہو گیا۔اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔