بلاگ

ٹرمپ اِن ایکشن: ہمسائے، اتحادی و دوست ہراساں

تمام حقیقی جمہوری ممالک کی طرح امریکہ کا ہر انتخاب بھی پہلے سے امتیازی ہی ہوتا ہے لیکن تمام انتخابات بحیثیت مجموعی روایتی انتخابی حیثیت اور یکساں اقدار کے حامل بھی ہوتے ہیں  لیکن ایک رجیم کے وقفے کے بعد صدر ٹرمپ کی دوبارہ وائٹ ہاؤس میں واپسی اور وہ خود جتنے انوکھے اور روایت شکن ثابت ہوئے اور ہو رہے ہیں اس سے تو ان کا دوسرا دور شروع ہوتے ہی امریکہ ہی نہیں دنیا میں ایک بڑا عالمی تغیر برپا ہونا ٹھہر گیا ہے۔ 

یہ اتنی سرعت سے اس لئے ہوا ہے کہ صدر ٹرمپ کی قطعی منفرد سیاسی سوچ و اپروچ طرز کہن کو اکھاڑ دینے والی ہی نہیں، یہ طرز کہن کو فقط ڈرانے اور اس کی بیخ کنی کے ارادوں اور اقدامات تک بھی محدود نہیں، ان کی سیاست گری کا اپنا ہی کمال ِ فن ہے، جود نیا میں فقط صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ہی ہے۔

لیکن ہاں! ہمارے مقبول ترین اسیر اور منفرد سیاست دان خان میں یکساں انداز و جواہر کے اشتراک کی بات پاکستان اور محدود انٹرنیشنل میڈیا میں بھی کی جاتی ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے اس انوکھے، حیران کن اور جرأت مندانہ یا دیدہ دلیرانہ تشخص کے باعث اپنا دوسرا دور بھی مکمل کرکے امریکی اور عالمی سیاسی تاریخ میں اپنے خصوصی حوالوں کی بھرمار سے عشروں تک یاد رکھے جائیں گے، ایسے ہی پاکستان میں خان بھی۔

 یوں پاکستانی بھی سو ،دونوں کی آنے والی نسلیں اس بارے میں جاننے میں دلچسپی لیتی رہیں گی۔ حقیقتاً ٹرمپ کا انداز سیاست و حکمرانی اپنا منفرد رنگ پہلے دور میں بھی کوئی کم نہیں دکھا چکا لیکن اس دور کی پرفارمنس کی انتہا، الیکشن میں شکست کے بعد کیپٹل ہل (منتخب ایوان) کی عالیشان بلڈنگ پر انتخابی شکست کے صدمے سے بے قابوپرجوش حامی، سیاسی پرتشدد دھاوے اور صدر ٹرمپ کے عین پولنگ ڈے پر اضطرابی کیفیت سے عیاں ہو رہی تھی، جب وہ اپنے حلیف گورنروں کو فون کر رہے تھے۔

صدر ٹرمپ کی اس مرتبہ کی انتخابی مہم اس لحاظ سے بہت اہم اور بااثر تھی کہ ان کا انتخابی ابلاغ اتنا موثر تھا کہ امریکہ کی آئندہ دنیا بھر میں جنگوں سے دور رہنے کی پالیسی اور اسی تناظر میں اقتدار میں آتے ہی یوکرین اور فلسطین، حماس جنگ کو فوری بند کرنے کا اعلان بڑے اعتماد سے کیا اور اسے عالمی امن قائم کرنے کے بیانئے کے طور پر دہرایا۔ 

دوسرے انہوں نے عالمی اور امریکی اولیگارکی (مافیہ راج) اور اپنی ڈیپ اسٹیٹ کوللکارا ۔ یہ عالمی و امریکی سیاست کے دو وہ طاقتور ترین اور روایتی گروپس ہیں جو حکومتوں پر قانون، پالیسی سازی اور سیاسی و حکومتی اقدامات پر اثر ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے چلے آ رہے تھے۔ امریکہ میں یہ قابلِ تنقید اور بالائی سطح کا متنازع سیاسی کھیل امریکی قومی مفادات کی آڑ میں ہوتا تھا۔ اس میں امریکہ میں ہی یہ علمی بیانیہ اور پبلک ڈس کورس (عوامی بیانیہ) دونوںتشکیل پا کر عام ہوئے کہ اس امریکی کردار سے خود امریکہ میں جمہوریت کو نقصان پہنچا، غربت بڑھی اور دنیا میں بھی امریکہ کا دنیا کی سب سے بڑی جمہوری قوت اور تنہا عالمی طاقت کے طور امیج تیزی سے گراہے۔ ٹرمپ نے ہر دو کو ڈیفوز کرنے کے لئے ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کو صدارتی انتخابی مہم کا اہم بیانیہ بنایا۔ 

اسی کی متوازی عالمی اولیگارکی مافیہ اور امریکی ڈیپ اسٹیٹ (بشمول طاقت ور امریکی ادارے) کے کردار کو آئینی حدود، حقیقی امریکی مفادات کے دائرے میں اور امریکہ کی سرحدوں سے باہر ان کی مداخلت کے ایجنڈے کو ختم کرنے کیلئے وائٹ ہائوس میں داخل ہوتے ہی جو اقدامات کئے، خصوصاً نیتن یاہو سے فوری جنگ بندی کرانے میں کامیابی نے امریکہ اور دنیا میں ان کی دھاک بٹھا دی کہ جو کہا تھا وہ آتے ہی کرکے دکھا دیا۔ لیکن دو ہفتے میں اس کے برعکس ان کا عالمی امور، امریکی مفادات کے حوالے سے ان کا متنازع ترین اور چونکا دینے والے ایجنڈے نے ان کے اتحادیوں، ہمسائیوں اور دوستوں کو بھی ہراساں اور خبردار کر دیا ہے۔ (جاری ہے)

نالج بیسڈ سول ملٹری ریلیشنز

(گزشتہ سے پیوستہ)

اس پیش منظر میں ملکی سلامتی کے روایتی عالمی نظریے اور اس کی ہوتی تیز تر تبدیلی عملاً واضح ہو رہی ہے کہ اب جغرافیائی احترام کو خطرہ و حملہ بزور دو طرفہ اور اتحادی جنگوں کا امن دشمن رجحان و حالات تو کم سے کم تر ہوتے جائیں گے، وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال بھی مشکل بنتا جائے گا تاہم یہ دشمن کے مقابل اپنے رعب و دبدبے کی ضرورت پوری کرتے رہیں گے، یعنی خوف کے توازن کی ۔ 

تاہم اس کی جگہ کمیونیکیشن وارفیئر کا زور شور بڑھتا جائے گا، جس میں میدان جنگ بھی ارضی نہیں، نفسیاتی اقتصادی، سیاسی اور اتحادی و استحکام کیلئے پبلک مائنڈ اور رائے عامہ ہوگی، عوامی رائے کی طاقت تو واضح ہوئے عشرے بیت گئے۔ 

کیا سردست پاکستان پر یہ دنیا میں سب سے زیادہ نہیں ہو رہا کہ ملکی دفاع و استحکام کو یقینی بنانے اور اسے خطرے میں ڈالنے کیلئے سائبر صلاحیتوں کی اہمیت کتنی زیادہ اور کتنی اہم ترین ہوگئی ہے۔؟جواں ہوتے نوخیز بچے بچیاں ہی اس کمیونیکیشن وار کی اصل فائٹنگ فورس ہوں گے، ہر طرح کے بیرونی دشمن کے خلاف یہ ہی بے وردی ملکی فوج باوردی اور روایتی فوج کے ہمرکاب کمیونیکیشن اور ڈیجیٹل ہتھیاروں سے ملکی سلامتی اور و استحکام کی دفاعی جنگ کے مجاہدین ہوں گے۔ 

لاکھوں کی چوکس، تربیت یافتہ اور دفاع وطن سے سرشار پروفیشنل پاکستان کی لاکھوں کی فوج کے سب سے بڑے معاون یہ ہی فائبر کمانڈوز اور سولجرز ہونگے۔ گویا پیراڈائم شفٹ کے ماحول میں پاکستانی قوت اخوت عوام کے یہ ہر دو اکثریتی پورشن پوری قوم کی جملہ صلاحیتوں کے ساتھ مجتمع ہو کر دفاع و استحکام وطن کے تقاضے پورے کریں گے۔ 

مکمل عیاں ہوگئی موجود اور مستقبل قریب کی اس عظیم مقدم اور ملک گیر زندہ وتابندہ حقیقت کو سمجھنا اور اسکے مطابق منصوبہ اور جملہ اقسام کی تیاری کرنا، پاکستان کے سیاسی و معاشی استحکام کے مساوی بلکہ اس سےبھی بڑا فوری اور ناگزیر قومی تقاضا بن گیا ہے۔ 

سو ہر دو کو قریب لانے، ایک دوجے کے متعلق زاویہ نگاہ کی یک شکلی کیلئے پاکستانی سوشل میڈیا ڈویژن کو کوسنے اور مطعون کرنے کی بجائے، جانثاروں اور ذہین و فطین سرگرم شبابی طاقت کو مینج کرنا روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی قومی حقیقت، ضرورت اور چیلنج ہے، جسے سول ملٹری ریلیشنز کے تناظر میں سمجھنے کے لئے وطن عزیز چند دنوں کی اور معمولی کوتاہی کا متحمل نہیں ہوسکتا، عالمی سیاست کے تغیر کی تیز تر عمل داری پیرا ڈائم شفٹ پر کڑی نظر رکھی جائے۔ وما علینا الالبلاغ المبین۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔