05 فروری ، 2025
اسماعیلی مسلم کمیونٹی کے روحانی پیشوا مولانا شاہ کریم الحسینی آغا خان چہارم انتقال کر گئے، پرنس کریم آغا خان کا انتقال پرتگال کے دارلحکومت لزبن میں ہوا۔
اسماعیلی امامت کے دیوان نے پرتگال سے جاری بیان میں پرنس کریم آغا خان کے انتقال کی تصدیق کی تاہم انتقال کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ انتقال کے وقت اہل خانہ ان کے پاس موجود تھے جن میں پرنس کریم آغا خان کے تین بیٹے رحیم آغا خان، علی محمد آغا خان اور حسین آغا خان جبکہ ایک بیٹی زہرا آغا خان شامل تھیں۔
مولانا شاہ کریم کی نمازجنازہ لزبن ہی میں ادا کیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے تاہم تدفین کے مقام، تاریخ اور وقت کا اعلان انتظامات کو حتمی شکل دیے جانے پر کیا جائے گا، نماز جنازہ میں شاہ کریم کے اہل خانہ، جماعت کے سینئر لیڈر اور امامت انسٹی ٹیوشنز کے اداروں سے منسلک افراد شرکت کریں گےجبکہ جماعت کے اراکین سے درخواست کی گئی ہے کہ مدعو نہ کیا جائےتو وہ نماز جنازہ میں ذاتی حیثیت میں شرکت کی کوشش نہ کریں۔
پرنس کریم آغا خان کے انتقال کی خبر جاری ہوتے ہی دنیا بھرمیں جماعت خانوں میں خصوصی دعائیں اوردرود کی تسبیح شروع کردی گئی ہےجو نئے پیشوا کے اعلان تک جاری رہے گیں جبکہ پرنس کریم آغا خان کے چالیس ویں کے موقع پر بھی مسلم روایات کے تحت خصوصی دعائیں مانگی جائیں گی۔
مولانا شاہ کریم الحسینی اسماعیلی کمیونٹی کے 49 ویں امام تھے، روایات کے تحت ان کے جانشین یعنی اسماعیلی کمیونٹی کے50 ویں حاضر امام کو نامزد کردیا گیا ہے۔ جانشین کی نامزدگی پرنس کریم آغا خان نے اپنی وصیت میں کی تھی جو یہ پرنس کریم آغا خان کے اہل خانہ اور جماعت کے سینئر اراکین کی موجودگی میں لزبن ہی میں پڑھ کر سنائی جائےگی۔
اسماعیلی عقیدے کے مطابق کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جماعت امام کے بغیررہی ہو، جیسے ہی امام اس مادی دنیا سے رخصت اختیار کرتے ہیں، ان کی روحانی روشنی ان کے نامزد جانشین کو منتقل ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ 1400 برس سے قائم ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ اسماعیلی کمیونٹی مولانا شاہ کریم کی زندگی اور ان کے ورثہ کی تکریم کرتی ہے اور شکرگزار ہے، ساتھ ہی وہ حاضر امام کے نور اور محبت سے تحفظ کا احساس کرتی ہے۔
اسماعیلی میڈیا کے مطابق پرنس کریم آغا خان اہل تشیع کے چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ سلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل کی نسل سے ہیں اور اسی لیے اس کمیونٹی کو اسماعیلی مسلم کہا جاتا ہے۔
پرنس کریم آغا خان کے آباو اجداد صدیوں پہلے فارس میں آباد ہوگئے تھے جہاں سے بھارت منتقل ہوگئے تھے، پرنس کریم آغا خان، پرنس علی خان کے بڑے بیٹے تھے، وہ 1936 میں سوئٹزرلینڈ میں پیدا ہوئے اور بچپن کے ابتدائی ایام نیروبی میں گزارے جبکہ انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے لا روزے اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
وہ ابھی ہارورڈ یونیورسٹی سے اسلامی تاریخ میں بیچلر آف آرٹس کی ڈگری لے رہے تھے کہ پرنس کریم کے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم نے 1300 کی تاریخی روایات کے برعکس بیٹے کی جگہ پوتے یعنی انہیں جانشین مقرر کردیا تھا۔ اس طرح پرنس کریم آغا خان نے انیس 1957 میں امامت سنبھال لی تھی اور اس وقت انکی عمر 20 برس تھی۔
پرنس کریم نے واپس جاکر 1959 میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈگری مکمل کی، انہیں 1957 میں ملکہ برطانیہ نے ہزہائنس کا خطاب بھی دیا تھا۔
سن 2006 میں برطانیہ کے شہزادہ چارلس پاکستان کے دورے پر آئے تو پرنس کریم کے ساتھ وہ اسکردو بھی گئے تھے، برطانیہ کے بادشاہ چارلس اپنے ذاتی دوست پرنس کریم آغا خان کے انتقال پر انتہائی افسردہ ہیں اور پرنس کریم کے اہل خانہ سے نجی طور پر رابطے میں ہیں، برطانیہ کے شاہی خاندان سے پرنس کریم کا گہرا تعلق رہا ہے، ولی عہدہ شہزادہ ولیم اور انکی اہلیہ شہزادی کیٹ نے آغاخان سینٹر لندن جاکر پرنس کریم سےملاقات کی تھی۔
پرنس کریم خاموش سفارتکاری کے حوالے سے بھی جانے جاتے تھے، امریکا کے وینٹی فیئر میگزین نے پرنس کریم آغا خان کو ون مین اسٹیٹ کا نام دیا تھا، پرنس کریم آغا خان ہی نے امریکا کے صدر رونالڈ ریگن اور سابق سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف کی جنیوا میں سفارتی بات چیت ممکن بنائی تھی۔
پرنس کریم کو برطانیہ اور کینیڈا نےبھی شہریت دی تھی مگر زندگی کا زیادہ تر عرصہ انہوں نے فرانس میں گزارا، ان کی پہلی اہلیہ برطانوی ماڈل سیلی کروکر تھیں جن سے انکی شادی 1969 میں ہوئی، سیلی کروکر نے اسلام قبول کرلیا تھا اورشہزادی سلیمہ آغا خان کہلاتی تھیں جن سے پرنس کریم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔
پرنس کریم کی یہ شادی 25 برس چلی اور علیحدگی پر پرنس کریم کو انہیں مبینہ طور پر 20 ملین پاونڈ دینا پڑے تھے جس کے بعد وہ 1998 میں شہزادی گیبرئیل سے پیرس کے نواحی علاقے میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے تھے، جرمن شہزادی نے اسلام قبول کرکے اپنا نام انارا اختیار کرلیا تھا،جوڑے کا ایک بیٹا ہوا تاہم 6 برس بعد جوڑے نے علیحدگی اختیار کرلی، پرنس کریم کو انہیں مبینہ طورپر 50 ملین پاونڈ دینا پڑےتھے۔
پرنس کریم اسکی انگ کے شوقین تھےاور 1964 میں ونٹر اولمپکس میں بھی حصہ لیا تھا، وہ اعلی ترین نسل کے گھوڑوں کی افزائش کے بھی دلدادہ تھے اورفرانس میں گھڑ دوڑ اور بریڈنگ کے سب سے بڑے ادارے کے مالک تھے، ان کے مشہور ترین گھوڑوں میں شیر گر بھی تھا جس نے 1981 میں ایپسن ڈربی ریس میں رکارڈ قائم کیا تھا جو کبھی توڑا نہ جاسکا تاہم اس گھوڑے کو آئرش فارم سے مبینہ طور پر آئی آر اے کے اراکین نے چُرا کر دو ملین پاونڈ تاوان طلب کیا تھا۔ ٹیلی فونک رابطے ہوئے مگر پرنس کریم نےتاوان دینے سے انکار کردیا تھاجس کے بعد رابطے ختم ہوگئے اور گھوڑے کا کچھ پتہ نہ چل سکا تھا۔
پرنس کریم آغا خان نےاپنی زندگی پسماندہ طبقات کی زندگیوں میں بہتری لانے میں صرف کی، وہ اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ اسلام ایک دوسرے سے ہمدردی، برداشت اور انسانی عظمت کا مذہب ہے، وہ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے بانی چئیرمین تھے۔
اس پلیٹ فارم سےانہوں نے دنیا کے مختلف خطوں خصوصا ایشیا اور افریقا میں فلاحی اقدامات کیے، یہ اقدامات زیادہ تر تعلیم، صحت، معیشت اور ثقافت کے شعبوں میں تھے، آغاخان فاونڈیشن کے 30 ممالک میں 80 ہزار ملازمین ہیں اور صرف سن 2023 میں آغا خان فاونڈیشن نے 58 ملین پاونڈ وقف کیے تھے۔
امریکی میڈیا کے مطابق پرنس کریم کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب ڈالر سے 13ارب ڈالر کےدرمیان ہے جن میں باہاماس کاجزیرہ ،پیرس میں محل، اوردوسوملین ڈالر مالیت کاجہاز بھی شامل ہے۔
پرنس کریم کو مختلف ممالک اور یونیورسٹیوں کی جانب سے اعلی ترین اعزازات اور اعزازی ڈگریوں سے بھی نوازا گیا تھا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔