کھیل

سری لنکن ٹیم پر حملہ: کس طرح دلشان کی بہادری نے کھلاڑیوں کی جان بچائی؟

دلشان سر اوپر کرکے ڈرائیور مہر محمد خلیل کو دہشتگردوں سے دور جانے کا راستہ بتارہے تھے — فوٹو: فائل

پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کو رخصت ہوئے اتوار کو 10 سال مکمل ہوگئے اور اب تک ملک میں بین الاقوامی کرکٹ پوری طرح بحال نہیں ہوسکی ہے۔

تین مارچ 2009 کو لاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گروں نے حملہ کیا تھا۔ اس کارروائی کے بعد سے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ملک میں غیر ملکی ٹیموں کو لانے کی کوشش کررہا ہے۔

یہ محض اتفاق ہے کہ 10 سال پہلے جس دن ٹیم پر حملہ ہوا اسی دن لاہور سے پی ایس ایل میچوں کو مختلف وجوہات کی بناء پر لاہور سے کراچی منتقل کردیا گیا۔

پاکستان میں ورلڈ الیون، سری النکا، ویسٹ انڈیز اور زمبابوے کے علاوہ پاکستان سپر لیگ کے میچز ہوئے ہیں لیکن ملک میں 10 سال سے ٹیسٹ میچ نہیں ہوا ہے— فوٹو: فائل

پاکستان کے امپائر احسن رضا سری لنکا ٹیم پر ہونے والے حملے میں پیٹ میں گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے تھے۔ احسن رضا اس وقت پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میچز میں امپائرنگ کررہے ہیں۔ احسن رضا پر امید ہیں کہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ واپس آئے گی اور وہ اپنے ہوم گراؤنڈ میں انٹرنیشنل میچز میں امپائرنگ کریں گے۔

پی سی بی ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی مکمل بحال کیلئے کوششوں میں مصروف ہے۔ پاکستان میں ورلڈ الیون، سری النکا، ویسٹ انڈیز اور زمبابوے کے علاوہ پاکستان سپر لیگ کے میچز ہوئے ہیں لیکن ملک میں 10 سال سے ٹیسٹ میچ نہیں ہوا ہے۔

مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے 12 دہشت گردوں نے مہمان کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا— فوٹو: فائل

تین مارچ سنہ 2009، سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے شہر لاہور میں تھی۔ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کا تیسرا دن شروع ہونا تھا۔ مقامی وقت کے مطابق صبح نو بجے 12 دہشت گردوں نے مہمان کرکٹ ٹیم پر حملہ کر دیا۔

اس واقعے میں حفاظت پر معمور 6 پولیس اہلکار اور ایک ڈرائیور ہلاک ہوئے۔ حملہ آور خودکار رائفلز، گرینیڈ اور راکٹ لانچرز سے لیس تھے۔

انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کے موجودہ کوچ ٹریور بیلس اور ان کے اسسٹنٹ پال فاربریس دونوں اُس وقت سری لنکا کی ٹیم کے لیے کام کرتے تھے اور ٹیم کی بس میں موجود تھے۔

 واقعے میں حفاظت پر معمور 6 پولیس اہلکار اور ایک ڈرائیور ہلاک ہوئے— فوٹو: فائل

ٹریور بیلس کہتے ہیں کہ تلخ یادیں ہمیشہ موجود رہیں گی، حملے نے یقیناً مجھ پر اپنا اثر چھوڑا جو کافی عرصے تک رہا۔ غالباً چار مہینوں تک میں لائٹس جلا کر سوتا رہا۔ مجھے اچھا نہیں لگتا تھا جب لوگ میرے پیچھے چلتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد آپ معمول پہ واپس چلے جاتے ہیں۔ وہ ایک خوفناک واقعہ تھا اس میں لوگ ہلاک ہوئے۔ ہمیں ایک کرکٹ میچ تک پہنچانے کے لیے لوگ مارے گئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔مجھے اس پر غصہ نہیں ہے۔ بس جو لوگ مر گئے ان کے لیے کافی دکھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جنگ کے لیے نہیں جا رہے تھے، وہ ہماری لاہور شہر میں رہنمائی کر رہے تھے، ایک ایسا شہر جو میرے لیے ہمیشہ دلکش رہا ہے۔ میرے خیال سے یہ غم ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔

فاربریس کے مطابق محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب صدیوں میں ختم ہوا، لیکن غالباً وہ کچھ سیکنڈز یا ڈیڑھ منٹ کا واقعہ تھا—فوٹو: فائل

پال فاربریس 10 سال بعد واقعے بتاتے ہوئے جذباتی ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے مرنے کا کبھی نہیں سوچا۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ اپنے بازو کو دیکھتے ہوئے میں بس یہ سوچ رہا تھا 'پلیز دوبارہ مجھے مت مارنا۔

پال نے بتایا کہ جس سیٹ پر ٹریور تھے اس کی کھڑکی پر تین گولیوں کے سراخ تھے۔ وہ نیچے ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنے آپ کی تھوڑی حفاظت کیلئے لیپ ٹاپ سمیت اپنے بستے کو کھڑکی کے آگے رکھ دیا تھا، بس پر گولیاں لگ رہیں تھی لیکن سب پرسکون تھے۔ مجھے صرف دلشان کی آواز آرہی تھی، وہ بڑی مخصوص آواز تھی، میں ابھی بھی اسے سن سکتا ہوں، غالباً میں پوری زندگی اسے سنتا رہوں گا۔

پال فاربریس نے کہا کہ دلشان ہمیشہ ڈرائیور کے پیچھے بیٹھتے تھے۔ میں انہیں سن رہا تھا کہ وہ چیختے ہوئے ڈرائیور کو بس ریورس کر نے کا کہہ رہے تھے— فوٹو: فائل

پال فاربریس نے کہا کہ دلشان ہمیشہ ڈرائیور کے پیچھے بیٹھتے تھے۔ میں انہیں سن رہا تھا کہ وہ چیختے ہوئے ڈرائیور کو بس ریورس کر نے کا کہہ رہے تھے۔ ڈرائیور اسٹیرنگ ویل کے نیچے سے اپنے بازو کو استعمال کر کے اسے گھما رہا تھا۔اس نے ریورس کرنا شروع کیا جبکہ دلشان اپنا سر اوپر کر کے ان کو حملہ آوروں سے دور جانے کا راستہ بتاتے تھے۔ ڈرائیور کو اس کا بہت کریڈٹ ملا۔ ہمیں اس صورت حال سے نکالنے کے لیے انہوں نے زبردست مہارت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن آج تک میں یہ سوچتا ہوں کہ دلشان کی بہادری نے ہماری جانیں بچائیں۔ سر اونچا کر کے ڈرائیور کو بتانا کہ کس طرف جانا ہے کہاں سے مڑنا ہے غالباً اس وجہ سے ہم بچ گئے۔

فاربریس کے مطابق محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب صدیوں میں ختم ہوا، لیکن غالباً وہ کچھ سیکنڈز یا ڈیڑھ منٹ کا واقعہ تھا، پتا نہیں، یہ ایک بات ہے جس کے بارے میں مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اس سب میں کتنی دیر لگی۔ اس طرح کی صورتحال میں محسوس ہوتا ہے کہ وقت رک گیا ہے۔ آپ کچھ نہیں کر سکتے تھے، بس آپ کو نیچے ہونا تھا، سر کو نیچے رکھنا تھا۔

مزید خبریں :