بلاگ
Time 05 مارچ ، 2019

اکیسویں صدی، بھارت اور جنگی جنون

آزادی کے ستر سالوں میں جو جنگی جنونیت بھارت دکھاتا آرہا ہے اس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ آزاد ہوتے ہی کشمیر پر قابض ہوگیا۔ حیدرآباد دکن دبوچ لیا۔ پاکستان سے جنگیں شروع کردیں۔ نیز گزرتے وقت کے ساتھ بھارتی شدت پسندی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ شمال میں چین اور نیپال سے الجھا رہا، جنوب میں سری لنکا کے لئے درد سر بنا رہا اور مشرق و مغرب میں پاکستان سے اپنا بغض نکالتا رہا۔ 

65ء کی جنگ ہو یا 71ء کی، بھارت نے سوائے زہر اگلنے کی اور کچھ نہ کیا۔ مشرقی پاکستان میں منفی کردار نبھاتا رہا یہاں تک کہ بنگلادیش الگ ہوگیا۔ بھارت کو پھر بھی سکون نہ ملا۔ وقتاً فوقتاً اپنی اوقات دکھاتا رہا۔ پاکستان نے کئی مرتبہ دل سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، مسئلہ کشمیر بیٹھ کر بات چیت سے حل کرنے کی دعوتیں دیں لیکن مثبت کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ حقیقت میں سوا ارب آبادی والے رقبہ میں پاکستان سے چار گنا بڑے بھارت کا دل بہت چھوٹا ہے۔

کارگل کے بعد جنرل پرویز مشروف جیسے کمانڈو نے پاکستان کی طرف سے پھر دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اس منفی پروپیگنڈے کے ٹکڑے کردیے کہ پاک فوج امن پسند نہیں۔ ماضی میں بھارت کے خلاف جنگوں میں حصہ لینے والے پرویز مشرف نے پڑوسی ملک پر واضع کیا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر معاملات مستقل بنیادوں پر بہتر نہیں ہوسکتے۔ اس وقت کے بھارتی لیڈورں نے بات کی اہمیت کو خاطر میں لاتے ہوئے مشرف کا ساتھ دینے کی ٹھانی۔ دونوں طرف کچھ عرصہ غور بھی ہوا اور پہلی بار بھارت نے کچھ لچک دکھائی لیکن معاملات پھر حل ہوتے ہوتے رہ گئے۔ اسے بدقسمتی کہیں یا بھارتی چال کہ پاکستان میں نئی حکومت آتے ہی پڑوسی مکرگیا اور مسئلہ کشمیر پھر سے بھارتی ضد اور انتہا پسندی کی نذر ہونے لگا۔

اس کے بعد کشمیر میں جدوجہدِ آزادی پھر سے زور پکڑنے لگی اور کشمیری نوجوانوں نے قابض بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف نئے جذبہ کے ساتھ نعرہ حق بلند کرنا شروع کردیا۔ اور وہ آج تک بھارت سے آزادی کے مطالبے پر زور دے رہے ہیں۔ بھارت میں مودی سرکار آنے کے بعد شدت پسندوں کی چاندی ہوگئی۔ انتہا پسند ہندو خود کو بادشاہ سمجھ کر اقلیتوں پر حکم چلانے کی کوششیں کرنے لگے۔ خاص کر مسلمانوں کا جینا پھر سے مشکل ہونے لگا۔ پچیس سے تیس کروڑ بھارتی مسلمان روزانہ کی بنیاد پر قوم پرست ہندوؤں کی انتہا پسندی کا شکار ہورہے ہیں۔ کہیں شہروں کے نام بدلے جا رہے ہیں تو کہیں 'کراچی' نام کی بیکری کو اپنا نام چھپانا پڑ رہا ہے۔ یہاں تک کہ جے پور جیل میں پاکستانی قیدی کو بےدردی سے قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ پاگل پن آج کا نہیں برسوں پرانا ہے۔

نریندر مودی کے ماضی سے تو سب خوب واقف ہیں۔ لیکن کم از کم ایک بات کا یہاں ذکر ضروری ہے۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی امریکا و کینیڈا میں داخلے پر پابندی تھی۔ وجہ ان کی شدت پسند فطرت اور گجرات میں قتلِ عام تھا۔ ساری دنیا مودی کو دہشت گرد کہتی تھی۔ لیکن ہر معاملے کی طرح اس بات پر بھی گرد پڑ گئی اور وزیراعظم بننے کے بعد دنیا نے مجبوراً نریندر مودی کو قبول کرلیا۔ آج کا بھارتی لیڈر ماضی میں دہشتگردی کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔ وقت بڑا ظالم ہے، مودی کے جرائم پر پردہ ڈال گیا لیکن جاننے والے جانتے ہیں مودی دراصل ایک انتہا پسند ہندو ہے جسے سوائے نفرت کرنے کے کچھ نہیں آتا۔ مودی نے ہمیشہ نفرت کی سیاست کو فروغ دیا ہے۔ اور قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ اس بار بھارتی میڈیا نے زہر اگلنے میں مودی سرکار کا ساتھ بھی پورا دیا ہے۔

14 فروری کو ہونے والے پلوامہ واقعہ کے بعد سے بھارتی میڈیا پاکستان مخالف پروپیگنڈے میں نفرت کی ہر حد پار کر گیا ہے۔ پاکستان پر حملے کی پلاننگ سے لے کر طرح طرح کی دھمکیوں تک، بھارتی میڈیا دنیائے صحافت کیلئے باعثِ شرمندگی بنا ہوا ہے۔ روزانہ کئی درجن جھوٹ بولے جاتے ہیں اور پھر پاکستانی ردِ عمل کے بعد معاملہ گول کردیا جاتا ہے۔ میرا سلام ہے پاکستانی میڈیا کو جس نے نفرت پھیلانے کے بجائے عقلی دلائل پر مبنی شاندار حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا اور بات چیت کے ذریعے معاملات نمٹانے پر زور دیتا رہا۔ سچ بولتا رہا اور سچ دکھاتا رہا۔ پاکستانی قوم ہو یا ٹی وی اینکرز۔۔۔ ہمارے اندر اتنا زہر اور نفرت سما ہی نہیں سکتی جتنی گند بھارتیوں نے اپنے دلوں میں بسائی ہوئی ہے۔

26 فروری کو رات کے اندھیرے میں بھارتی وزیراعظم کا جنگی جنون جوش مارا اور بھارت کے اندر کا دہشت گرد پھر سے جاگ اٹھا۔ کچھ بھارتی لڑاکا ہوائی جہاز چھپ کر پاکستان فضائی حدود میں داخل ہوئے جنہیں پاک فضائیہ نے منٹوں میں بھگادیا۔ خوف کے مارے بھارتی پائیلٹ فرانسی ساختہ میراج-2000 سے ہزار کلوگرام پےلوڈ گراتے ہوئے فرار ہوگئے۔ فضائیہ کی زبان میں اسے دُم دبا کے بھاگنا کہتے ہیں۔ بھارتی دعوے کے مطابق 12 جنگی طیاروں نے 350 دہشتگرد مار دیے۔ بھارتی میڈیا یہ دعویٰ زور و شور سے نشر کرتا رہا۔ یہاں تک کے تین برس پرانی یوٹیوب سے لے گئی ایک ویڈیو بھی چلائی گئی جس نے بھارت کے گندے عزائم کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ یکے بعد دیگرے جھوٹ ہر مبنی دعوے کیے گئے جو جھوٹے ثابت ہوتے رہے۔ بھارتی میڈیا اس قدر گر گیا کہ ایک ویڈیو گیم سے کلپ نکال کر شور مچاتا رہا کہ بھارتی فضائیہ نے اس طرح اسٹرائیک کیا۔

بھارتی میڈیا کی جانب سے دکھائی کی گئی دراصل ایک ویڈیو گیم سے لی گئی تھی۔

پر کیا کریں کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے۔ گیم سے لی گئی ویڈیو بھی اور یوٹیوب سے اٹھائی گئی فوٹیج ساری دنیا میں بھارت کی تذلیل کا سبب بنتی رہی۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ عراق و افغان جنگ میں امریکاجیسے ملک نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ایک حملے میں 350 دہشتگرد مارے گئے۔ بھارت کا بھی اپنا مذاق بنوانے میں کوئی ثانی نہیں۔ جعلی بھارتی کلیم کا جواب پاک فوج کے ترجمان نے خوب دیا۔ کہا کہ دنیا بھر کے صحافیوں سمیت غیر ملکی سفیروں کو بھی جائے وقوع کے معائنے کی دعوت ہے۔ ساتھ چلیں اور اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لیں کہ حملہ کسی بلڈنگ پر کیا گیا یا درختوں پر اضافی بوجھ گرا کر بھاگ نکلے۔ ڈی جی صاحب تو بھارت کو بھی دعوت دے گئے کہ آئیے اور ہمیں بھی دکھائیے کہاں حملہ کیا اور کون سا نقصان ہوا۔ یہ درحقیقت بھارت کے منہ پر ایک ایسا تماچہ ہے جو بھارتی فوج سالوں نہیں بھولے گی۔

27 فروری کو جوابی کاروائی میں پاکستان نے بھارتی لڑاکا جہاز مار گرائے اور ایک پائلٹ کو زندہ پکڑ لیا۔ یہ بات دنیا بھر میں بھارت کیلئے شرمندگی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ دنیا والوں کا یقین مزید پختہ ہوگیا ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی میں کامل اور دفاع میں بے حد مضبوط ہے۔ بھارت ابھی اپنے زخم چاٹ ہی رہا تھا کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران گرفتار بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو امن کی خاطر واپس بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان کردیا۔ 

اور اگلے ہی دن وزیراعظم کی بات پر عمل کر بھی دیا گیا جسے دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے براہ راست دیکھا۔ بھارتی آفیسر نے پاکستان آرمی کے پروفیشنل ازم کی تعریف کری، ساتھ ہی ہجوم سے جان بچانے پر شکریہ بھی ادا کیا۔


بھارتی پائلیٹ ابھی نندن کو واہگہ بارڈر پر بھارت کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ 

یہ بھارت کے جنگی جنون کو لگنے والا وہ تمانچہ ہے جو صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ ہر طرف پاکستان کی امن کو فروغ دینے کی اس کوشش کر سراہا جارہا ہے۔ دنیا پر واضع ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے مستقل جدوجہد میں مصروف ہے۔ 

جب کہ دوسری جانب بھارت نفرت پھیلانے اور جنگ مسلط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ پاکستان جنگ کی نیت سے آنے والے پائلٹ کو زندہ بھارت کے حوالے کرتا ہے جبکہ بھارت کئی سالوں سے جیل میں قید ایک پاکستانی کی میت ہمارے حوالے کرتا ہے جو بھارتی جنگی جنونیت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ یہ واقعہ خود بھارتی شدت پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ بھارت اپنی نفرتوں کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوپا رہا۔ وہ ناقابلِ یقین جمہوریت، معاشی طاقت یا ترقی پسند ہونے کا کتنا ہی جھوٹا راگ کیوں نہ الاپے، دنیا اس کی حقیقت سے آشنا ہوتی جارہی ہے۔ اور نفرت پھیلانے میں آگے آگے رہنے والے بھارتی میڈیا کی اصلیت بھی بین الاقوامی سطح پر زیرِ بحث ہے۔ بھارت اپنے ہی وزیراعظم کی پاکستان مخالف انتخابی مہم کا شکار ہوگیا ہے۔ نفرت کی جو آگ نریندر مودی نے جلائی تھی۔ 

اب اس کا اپنا ملک اسی آگ میں جلنا شروع ہوگیا ہے۔ اور بھارت کے اپنے اندراس بات نے زور پکڑنا شروع کردیا ہے کہ جب پاکستان نے دوستی کا ہاتھ بڑھائے رکھا ہوا ہے تو آخر ہم کس لئے جنگ مسلط کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ بھارتی عوام اپنی ہی حکومت اور میڈیا سے سوال کر رہے ہیں کہ بھارتی فضائیہ پاکستان کے اندر حملے کے نہ کوئی ثبوت دے سکی، نہ ہی پاکستانی جہاز کے گرنے کا کوئی ملبہ دکھایا جاسکا، نہ ہی بھارت او آئی سی اجلاس میں کوئی کامیابی سمیٹ سکا، الٹا مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کی جانب سے بھارت کو کشمیر میں مظالم بند کرنے کا کہا گیا ہے۔ اتنی ذلت کے بعد بھی جنگی جنونیت آخر کس لئے؟

پاکستان نے ہر محاذ پر بھارت کو چاروں شانے چت کردیا ہے۔ جس قدر سمجھداری کا مظاہرہ پاکستان نے کیا ہے اپنی مثال آپ ہے۔ ہماری طرف سے امن کا واضح پیغام ہے۔ بھارت نے اگر اس بار بھی مکاری دکھائی اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو یہ جنگی جنون بھارت کو لے ڈوبے گا۔ کیوں کہ اکیسویں صدی میں جنگی جنونیت کی جگہ بنتی نظر نہیں آتی۔ اب وہی سپر پاور بنے گا جو مسائل کا بات چیت سے حل نکالے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔