بلاگ
Time 20 مارچ ، 2019

بھارت نے پاکستانی صحافیوں کے ویزہ کیوں "رد" کیے؟

بھارتی میڈیا پر چلنے والی خبروں کا ایک عکس

پاکستانی اور بھارتی ذرائع ابلاغ اور خاص طور سے "الیکٹرانک میڈیا" دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہو گی ۔ حالیہ برسوں کے دوران پاک و ہند کےصحافیوں نے عوامی رائے عامہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا جس کے اثرات سب نے دیکھے۔ یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ عوام پر ہونے والے اثرات منفی تھے یا مثبت مگر یہ حقیقت ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ، خواہ وہ کسی بھی دنیا میں کہیں بھی رہائش پزیر ہوں ، اپنا میڈیا بڑی باقاعدگی اور غور سے دیکھتے ہیں۔

لیکن جب بات میڈیا کے اخلاقی اقدار، ذمہ دارانہ اور پیشہ ورانہ مسائل اور خاص طور پر جعلی ، جھوٹی اور غیر تصدیق شدہ خبروں کی ہو تو معاملہ گھمبیر ہو جاتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جھوٹی ، بے پر کی خبروں اور جعلی خبریں پھیلانے اور عوامی رائے پر جھوٹ مسلط کرنے کے معاملے میں بھارت پاکستانی میڈیا کہیں آگے ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ جعلی خبروں کا بازار گرم کرنے میں بھارت سے کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تھوڑے سے سچ میں بہت سے جھوٹ کی ملاوٹ سیکھنا ہو تو بھارتی میڈیا سے سیکھیں۔

اگر یقین نہ ہو تو کسی بھی آزاد اور غیر جانبدار ذرائع ابلاغ کی تنظیم سے دونوںملکوں کے میڈیا کے پانچ مقبول ترین ٹاک شوز اور پرائم ٹائم خبروں کے بلیٹن کا موازنہ کروالیں ۔ یقین کریں جعلی اور جھوٹی خبروں سے لبریز مواد پیش کرنے کے طریقہ کار اور پھیلانے کے معاملے میں بھارت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ عوام کے ذہنوں کو خراب کرنے اور ان میں دیوانگی اور جنون پیدا کرنے میں ان ہی جھوٹی اور غیر مصدقہ خبروں کا اہم ترین کردار ہو تا ہے۔ ان خبروں کو کچھ اس طرح پھیلایا جاتا ہے کہ یہی اصل اور مصدقہ معلوم ہونے لگتی ہیں یہاں تک کہ ان کو جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ کہنے والوں کو ہی غدار کہا جانے لگتا ہے۔

 تھوڑے سے سچ میں بہت سے جھوٹ کی ملاوٹ سیکھنا ہو تو بھارتی میڈیا سے سیکھیں۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے اخلاقیات سے جڑے اپنے مسائل ہیں جو اکثر و بیشتر غیر ذمہ دارانہ اور غیر پیشہ ورانہ انداز کی صورت میں ظاہر ہو تے ہیں ۔ لیکن جب معاملہ دو نوں ملکوں کے درمیان جنگی صورت حال کو ہو تو معاملہ مزید خراب ہو جاتا ہے۔ جنگ کے دوران خبریں عموماً دوسرے یا تیسرے ذریعے سے آتی ہیں یعنی صحافی کو اپنے قابل اعتماد ذرائع سے خبر ملتی ہے لیکن اس کے اشاعت یا نشر کرنے سے پہلے وہ اس کی تصدیق اپنے طور پر ضرورکرتا ہے۔ اس صورت حال میں صحافی حکومتی یا سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دے کر خبر کی ذمہ داری منتقل کر تا ہے اور یہی مروجہ طریقہ کار بھی ہے ۔ لیکن مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب صحافی خبر اس طرح لکھے یا بیان کرے کہ جیسے وہ خود محاذ پر موجود تھا ۔ جب کہ حقیقت میں وہ اس سے میلوں دور ہوتا ہے۔ یہ انداز بیان صحافتی دنیا میں انتہائی غیر اخلاقی اور غیر پیشہ ورآنہ عمل سمجھا جاتا ہے۔

حال ہی میں پیش آنے والے حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں تو ہم با آسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک انتہائی نازک صورت حال میں بھارتی میڈیا " جنگی جنون" میں غرق تھا ۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان کے بارے میں بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت کتنا ہی سخت موقف رکھتی ہو، پاکستانی میڈیا "کرتار پورراہداری " کھولنے پر ہونے والی بات چیت کی خبریں براہ راست نشریات کر کے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤمیں خاطر خواہ کمی لا سکتا تھا۔

گردوارہ کرتار صاحب کا دلفریب منظر — فوٹو: راوی

لیکن ایسا ہوتا ہی کیوں ، مجھے حیرانی ہوتی اگر بھارتی حکومت پاکستانی ذرائع ابلا غ کے نمائندوں کو کرتار پور پر ہونے والی بات چیت کو "کوور" کرنے کے لیےویزے جاری کر کے جنگی کشیدگی کم کرنے کی ایک چھوٹی سے کوشش کرتا۔ کیوں کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا جعلی خبریں نشر کرکے عوام میں جنگ کے جذبات بھڑکانے سے میلوں دور امن کا پیغام دیتا دکھائی دیتا ہے۔

لہٰذا، میرے خیال میں بھارت "کرتار پور راہداری " پر ہونے والی بات چیت کی خبروں کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس کا ثبوت بھارت کے ایک سینئر افسر اور متعلقہ وزیر کے بیانات ہیں ۔وزیر کا کہنا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا۔

بھارت میں دم ہے تو وہ اقوام متحدہ میں چین کی جانب سے مولانا مسعود اظہر پر پابندی کی قرار داد ویٹو کرنے کے بعدوہ چین سے اپنے تجارتی تعلقات کو ختم کر کے دکھائے یا اس میں کسی قسم کی پابندی لگانے کا اعلان کرے۔ میرےنزدیک بھارت ایسا کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔

اس لیے بھارت کے جانب سے "کرتار پور راہداری" پر ہونے والی بات چیت کو کوور کرنے کے لیے پاکستانی صحافیوں کے ویزے کی درخواست مسترد ہونے پر مجھے حیرانی نہیں ہوئی۔ ایسا لگتا ہے جیسے بھا رت اس بات چیت کواہمیت نہ دے کر دونوں ملکوں کے درمیان "برف پگھلنے" کا تاثر دینے کا مخالف ہے ۔ امن کے برعکس بھارت اپنے" نجی میڈیا" کے ذریعے جنگی جنون اور دیوانگی کی کیفیت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ پاک بھارت مذاکرات سے پہلے اور بات چیت کے بعد اعلامیہ جاری ہونے کی خبروں کے علاوہ پاکستانی ذرائع ابلاغ اور کیا شائع یا نشر کرتا لہٰذا پاکستانی صحافیوں کے ویزے مسترد کرنا بھارت کا غیر دانشمندانہ فیصلہ تھا ۔

چند روز پہلے جیو نیوز کے پروگرام " رپورٹ کارڈ" میں میں نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے مبصرین اور بھارتی صحافیوں کو اس جگہ کا دورہ کروائیں جہاں بھارتی دعوے کے مطابق ان کے جنگی طیاروں نے عسکریت پسندوں کے تربیتی کیمپ کو تباہ اور 300 لوگوں کو مارا۔لیکن جیسا کہ ایک بھارتی صحافی جاوید نقوی نے اپنے تجزیے بعنوان " جب سچ پہلا شکار ہوا" میں لکھا کہ کچھ بھارتی پروگرام اینکروں نے حملے کو اس طرح بیان کیا کہ جیسے وہ خود کاک پٹ میں تھے ۔

حکومت پاکستان اپنے صحافیوں کو بھارتی ویزہ جاری کرنے کے معاملے میں ایک بہتر جواب کی توقع کر رہی تھی کیوں کہ حال ہی میں پاکستان نے مقبول ترین بھارتی صحافیوں اور اینکرز سمیت ذرائع ابلاغ کے درجنوں نمائندوں کو "کرتارپور راہداری" کی افتتاحی تقریب کے موقع پر نا صرف ویزے جاری کیے تھے بلکہ ان کو پاکستانی سیاستدانوں اور دیگر کے انٹرویو کرنے کی اجازت بھی دی ۔

لیکن بھارت کا یہ اقدام متوقع تھا جس کی کم از کم تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔

1: کرتاپور راہداری کو کھولنا پاکستانی تجویز تھی جسے دنیا بھر کے لاکھوں سکھوں سمیت بھارتی عوام نے بھی سراہا

2: کرتارپور راہداری کھولنے کا اعلان پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارتی کرکٹر ، پروگرام ہوسٹ اور سیاستدان "نوجوت سنگھ سدھو" سے اپنی مقبول " جپھی" کے بعد کیا۔ یاد رہے کہ نوجوت سنگھ سدھو کو وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریب حلف برداری میں مدعو کیا تھا۔

3: کرتارپور راہداری کھولنےکی تجویز پاکستان کی اپنے پڑوسی ملک سے امن کی خواہش کا مظہر اور بھارت کے لیے سبکی کا باعث تھا ۔

یہ بات طے ہے کہ گزشتہ ہفتوں کے دوران پیش آنے والے نا پسندیدہ واقعات کے بعد پاکستانی میڈیا اس بات چیت کو مثبت انداز میں پیش کر کے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی لا سکتا تھا۔اس کے علاوہ یہ ایک ایسا موقع بھی تھا جو پاکستان اور بھارتی صحافیوں کے درمیان پل کا کردار ادا کر کے جنگی جنون میں خاطر خواہ کمی کا باعث ہوتا اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ بات چیت کا آغاز دونوں ملکوں کے درمیان امن کی نئی راہیں کھولنے ، غلط فہمیاں دور کرنے اور غلط تصورات کے خاتمے میں مدد گار ہوتا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی ایک تاریخ ہے لیکن اس معاملے میں ذرائع ابلاغ بالخصوص اخبارات نے ہمیشہ الفاظ کا انتخاب ذمہ دارانہ اور مہذب صحافتی آداب کا خیال کرتے ہوئے کیا اور اخلاقی حدود کبھی عبور نہیں کیں۔ اس کی ایک وجہ ذہین اور طاقتور مدیر اعلیٰ بھی تھے۔

ذرائع ابلاغ کی دوڑ کا آغاز 1990 کی دہائی میں بھارتی نجی ٹیلیویژن چینلز کھلنے کے ساتھ ہوا۔ اس زمانے میں بھارتی نجی ٹی وی چینلز کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف پاکستان ٹیلیویژن تھا ۔ انہی دوران ہونے والی کارگل جنگ کے موقع پر بھارت نے نجی ٹی وی چینلز کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا اور دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کی سر توڑ کوششیں کیں۔

کارگل کے پس منظر میں فوجی حکومت کے سربراہ اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں نجی ٹیلیویژن چینلز کے لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ۔ جس کے بعد جیو ٹی وی، اے آر وائی اور ایکسپریس نیوز جیسے ٹی وی چینلز نے اپنی نشریات کا آغاز کیا جسے کے بعد دیگر چینلز بھی مارکیٹ میں آئے۔

جنرل پرویز مشرف آگرہ گئے تو انہوں نے اخبارات اور ٹی وی کے مدیران اور میڈیا مالکان سمیت درجنوں صحافیوں کو اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی ۔ آزاد میڈیا کے ہونے سے کسی پاکستانی صدر کے دورے کی کوریج میں آنے والی تبدیلی کولوگوں نے بخوبی محسوس کیا ۔ پھر ایک ایسے موقع پر کہ جب پاکستانی اور بھارتی سربراہان مملکت ایک معاہدے کے قریب پہنچنے والے تھے تو بھارتی اہلکاروں نے خاموشی سے اس کا مبینہ متن اخبارات میں شائع کروا دیا گیا اور پھر دونوں سربراہان کی حتمی بات چیت سے پہلے جنرل پرویز مشرف کی بھارتی ذرائع ابلاغ کے مدیران اور صحافیوں سے بات چیت نے سفارتی طور پر نقصاندہ ثابت ہوئی ۔

اس پورے پس منظر میں بھارت کی جانب سے پاکستانی صحافیوں کے ویزے مسترد کرنا کوئی انہونی بات یا خبر نہیں تھی، ہاں اگر وہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کو ویزہ دے دیتے تو ضرور خبر بنتی۔ چلیں جو ہوا سو ہوا ہم سب کو "کرتار پور راہداری " کھولنے کے معاملے پر ہونے والی بات چیت سے ٹھوس اور مثبت پیش رفت کی امید رکھنی چاہیے۔تاہم اس مرحلے پر پاک بھارت امن مذاکرات میں کسی بریک تھرو کی امید نہیں لگائی جا سکتی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔