22 مارچ ، 2019
6 ماہ میں بی آر ٹی منصوبہ مکمل کرنے کا دعویٰ کرنے والی خیبرپختونخوا حکومت 17 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بس سروس منصوبے پر کام مکمل نہ کرسکی۔
بی آر ٹی کے کوریڈور پر کام مکمل ہونے کے بعد حکومت عجلت میں 23 مارچ کو ادھورے منصوبے کا افتتاح تو کر رہی ہے تاہم بس ڈپوز اور بس اسٹیشنز پر کام مکمل نہیں ہوسکا جبکہ انٹیلی جینٹ ٹرانسپورٹ سسٹم کی تنصیب سمیت بسوں کی چین سے درآمد بھی مکمل نہیں کی جاسکی ہے۔
پہلے مرحلے میں بس پر خواتین، بچے، معذور اور عمر رسیدہ افراد ہی سفر کرسکیں گے جبکہ دیگر شہریوں کو منصوبہ مکمل ہونے پر ہی آرام دہ بس کی سواری نصیب ہوگی۔
دوسری جانب وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی کہتے ہیں کہ بڑے منصوبے میں تاخیر کوئی مسلہ نہیں، اصل ہدف عوام کو پائیدار منصوبہ دینا ہے۔
ذو بسیں (ذو پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں چلیں) جس 26 کلومیٹر کواری ڈور پر چلیں گی وہ تو مکمل کرلیا گیا ہے تاہم چمکنی، ڈبگری اور حیات آباد میں تین بس ڈپوز پر کام مکمل نہیں ہوا ہے۔
ڈپوز پر مسافروں کی گاڑیوں اور بسوں کی پارکنگ، فیولنگ اور کمرشل پلازہ سمیت دیگر سہولیات فراہم کی جانی تھیں۔
چمکنی کے 175 کنال بس ڈپو پر بس سروس کا کنٹرول سینٹر بھی قائم نہیں کیا گیا، منصوبے کے تعمیراتی کام کے باعث بعض مقامات پر ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔
گلبہار بس اسٹیشن کے قریب کھڑے شہری صفدر خان نے جیونیوز کو بتایا کہ حکومت بس سروس منصوبے کو شروع کرنے کے حوالے سے چار مرتبہ پہلے بھی مختلف ڈیڈلائنز دے چکی ہے، منصوبے کے باعث ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے لہٰذا حکومت منصوبے کو جلد مکمل کرے تاکہ لوگوں کی مشکلات کم ہو سکیں۔
منصوبے کے 32 میں سے 11 بس اسٹیشنز پر بھی کام مکمل نہیں ہوا، ڈبگری، شعبہ بازار، ڈاکٹریونس چوک اور تہکال سمیت گ11 بس اسٹیشنز پر کام اپریل کے آخر تک مکمل کیا جائے گا۔
ڈائریکٹر جنرل پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اسرار الحق نے بتایا کہ بیشتر بس اسٹیشنز پر کام مکمل کرلیا گیا ہے، پی سی ون کے مطابق منصوبے کی تاریخ تکمیل 30 جون تھی۔
اسرار الحق کا کہنا ہے کہ کوریڈور کی اطراف کی سڑکوں پر 80 فیصد سے زیادہ کام مکمل کرلیا گیا ہے جبکہ تینوں بس ڈپوز پر کام جون کے آخر تک مکمل کرلیا جائے گا۔
بس سروس منصوبے کے آپریشنز کے لیے ٹرانس پشاور کے نام سے کمپنی قائم کی گئی۔ بسوں کی درآمد، انٹیلی جینٹ ٹرانسپورٹ سسٹم (آئی ٹی ایس)کی تنصیب اور بسوں کو چلانے کی ذمہ داری ٹرانس پشاور کو سونپی گئی تاہم کمپنی اپنے مقرر کردہ اہداف میں سے بیشتر حاصل نہیں کر پائی ہے۔
منصوبے کے لیے 220 بسیں چین سے درآمد کی جانی تھیں تاہم اب تک صرف 21 بسوں کی پہلی کھیپ ہی پشاور لائی جاسکی ہے اور بسوں کی درآمد کا کام بھی جون کے آخر تک مکمل ہوگا۔
بی آر ٹی کے لیے جدید (آئی ٹی ایس) کی تنصیب کا 30 فیصد سے بھی کم کام ہی مکمل ہو پایا ہے۔ آئی ٹی ایس کے ذریعے نہ صرف شہریوں کو خودکار نظام کے ذریعے بس ٹکٹس ملیں گے بلکہ نظام کے تحت بسوں کی آمدورفت سمیت دیگر چیزوں کی نگرانی کی جاسکے گی۔
بسوں کو چلانے، مرمت اور دیکھ بھال کا کام نجی کمپنی ڈائیوو کے حوالے کیا گیا ہے اور اب تک کمپنی نے چالیس ڈرائیورز کو گاڑیاں چلانے کی تربیت دی ہے۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا اور ٹرانس پشاور بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر شہزاد بنگش نے جیونیوز کو بتایا کہ آئی ٹی ایس کی تنصیب کا کام مارچ میں مکمل ہونا تھا اور اس کی تنصیب تیزی سے جاری ہے تاہم چند اسٹیشنز پر ابھی بھی کام مکمل نہیں ہوا اس لیے آئی ٹی ایس کی تنصیب کام اگلے ماہ کے آخرتک مکمل کیا جائے گا۔
ڈاکٹر شہزاد بنگش کے مطابق بسوں کی چین سے مرحلہ وار درآمد جاری ہے اور یہ کام جون میں مکمل ہوگا، پشاور بس سروس منصوبہ عالمی معیار کا ہے جس سے شہریوں کی سفری مشکلات ختم ہوجائیں گی۔
منصوبے میں ڈیڑھ درجن سے زیادہ چھوٹی بڑی تبدیلیاں کی گئیں، اکتوبر 2017 میں شروع ہونے والے منصوبے کو کے پی کے حکومت نے چھ ماہ کے اندر مکمل کرنے کا دعویٰ کیا تاہم یہ دعویٰ ہوا ہوگیا۔
منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 49 ارب روپے لگایا گیا جو 66 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
منصوبے میں تاخیر پر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے تشویش جب کہ وزیراعلی محمود خان نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔
صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کے مطابق بی آر ٹی صوبے کا سب سے بڑا منصوبہ تھا وقت کا کوئی مسئلہ نہیں چاہتے تھے کہ منصوبہ پائیدار ہو، کسی بھی بڑے تعمیراتی منصوبے میں تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں اور تاخیر بھی کیوں کہ 6 کلو میٹر پل بنائے ہیں جن کو بنانے میں وقت زیادہ لگا۔
انہوں نے کہا کہ بی آر ٹی کی لاگت ملک کے دوسرے بس سروس منصوبے سے کم ہے، آئی ٹی ایس کی تنصیب تاخیر کا شکار ضرور ہے تاہم اسے بھی جلد مکمل کرلیا جائے گا۔
صوبائی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ بی آر ٹی کے ذریعے روزانہ چار لاکھ مسافر سفر کریں گے تاہم 23 مارچ کو ہونے والی سافٹ اوپننگ کے تحت 21 بسیں چلائی جائیں گی جن پر خواتین، بچے، معذور اور عمررسیدہ افراد ہی سفر کرسکیں گے یوں منصوبے سے ابتدائی طور پر پر چند ہزار افراد ہی مستفید ہو سکیں گے ۔
بی آر ٹی کے کوریڈور میں حیات آباد سے کارخانو تک بعد میں توسیع کی گئی اور یہ ڈیڑھ کلومیٹر روٹ پر بھی کام جون میں مکمل ہوگا۔