Time 23 مارچ ، 2019
انٹرٹینمنٹ

’لال کبوتر‘: ایک بہت اچھی فلم کی دو بڑی غلطیاں

فلم غالباً فرسٹ ٹائم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کی کاوش ہے جس میں کاسٹ بھی اسٹار پاور نہیں لیکن اسکرین پاور ضرور رکھتی ہے — فوٹو: تشہیری پوسٹر 

لال کبوتر بنانے والوں نے بہت اچھی فلم بنا کر بھی دو بڑی غلطیاں کردی ہیں، یہ دو غلطیاں ایک اچھی فلم کو فلم بینوں سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ 

یہ دو بڑی غلطیاں کیا ہیں، ان پر روشنی بعد میں، پہلے لال کبوتر بطور فلم کیسی ہے، اس پر بات کرتے ہیں۔ 

فلم کا نام بہت ہی موزوں اور کافی ہٹ کر ہے، فلم کی کہانی شروع میں ودیا کی ’کہانی‘ جیسی لگتی ہے لیکن آ گے جا کر مکمل تبدیل ہوجاتی ہے۔

ہاں کچھ ملانے والے دونوں فلموں کو ایسے ہی ملاسکتے ہیں جیسے ہر فلم میں ہیرو، ہیرو اور ہیروئن ہوتے ہیں اسی طرح لال کبوتر اور کہانی میں بیوہ، بدلہ، ٹارگٹ کلر، پولیس اور یہاں کراچی اور وہاں کلکتہ کے گرد گھومتی ہیں۔ 

فلم کی عکس بندی کے دوران کے مناظر — فوٹو: فلم آفیشل پیج 

فکر نہ کریں فلم بالکل کاپی نہیں بلکہ فلم کی باقی کہانی اتنی ہی الگ ہے جتنی ’شعلے‘ اور ’ہم آپ کے ہیں کون‘۔

فلم کی کہانی کے بارے میں آگے بتانا فلم دیکھنے جانے والوں اور فلم بنانے والوں سے زیادتی ہوگی لیکن کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے کی طرح بچ بچا کر کچھ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

فلم بھی کراچی کی سڑک پر دن دہاڑے ایک صحافی کے قتل سے شروع ہوتی ہے اور پھر ٹارگٹ کلرز کی تلاش، اسٹریٹ کرائمز کے تڑکے، پولیس کی کرپشن اور طاقت اور پیسے کمانے کی لالچ کرنے والوں کے انجام پر ختم ہوتی ہے۔

فلم کے بہترین سین وہ ہیں جن میں پولیس والے ہیں اب چاہے وہ گھر میں ہو یا تھانے میں یا پھر ایکشن میں ہوں یا پھر ہنسانے میں، فلم کا ہیرو اس فلم کی ٹیم ہے جس نے تھوڑا نہیں کافی ہٹ کر وہ پیش کیا جو کراچی میں بہت زیادہ ہوتا آیا ہے۔

— فوٹو: فلم آفیشل پیج

سینما ٹو گرافی ہو یا کہانی، بیک گراؤنڈ میوزک ہو یا ایڈیٹنگ، ایکٹنگ ہو یا مکالمے، پروڈکشن ہو یا ڈائریکشن سب ایک دوسرے سے ہم آہنگ تھے، نہ کوئی پیچھے رہا نہ کوئی آگے نکل پایا اور یہی اس ٹیم کی کامیابی ہے۔

پھر بھی ذاتی پسند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ولن کے مخبر سے پولیس کی تفتیش، پولیس اور ولن کا پہلا ٹاکرا، عدیل اور عالیہ کا ایک دوسرے کو چیلنج، پہلا اور تیسرا قتل دیکھنے والوں کے فیورٹ سین ہونگے۔

فلم کا کلائمکس بھی انٹر کٹنگ پر ہے یعنی دو واقعات ایک ساتھ سر انجام ہوتے ہیں اور آپ کو قید کرلیتے ہیں۔

فلم غالباً فرسٹ ٹائم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کی کاوش ہے جس میں کاسٹ بھی اسٹار پاور نہیں لیکن اسکرین پاور ضرور رکھتی ہے۔ احمد علی اکبر، منشا پاشا، راشد فاروقی، سلیم معراج، محمد احمد، راشد کے ساتھی افسر اور مخبر نے بھی کمال کی ایکٹنگ کی۔

فلم کا شوٹنگ کا منظر — فوٹو: فلم آفیشل پیج 

علی کاظمی کا چھوٹا لیکن اہم کردار نبھانے پر شاباش ہے کیونکہ اس کاسٹ میں سب سے مشہور وہی تھے لیکن انھوں نے غالباً نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کیلئے یہ کردار قبول کیا۔

فلم میں کمزوریاں بہت کم لیکن ہیں جیسے گاڑی میں 5 ہزار کا نیا کڑک نوٹ سیدھا آنکھوں کو چھبتا ہے، عدیل کے کمرے میں بھی رانی اور روینا کافی مِس فٹ لگتی ہیں۔ 

ولن کے دوسرے ساتھی کا اتنے ڈر اور شدت سے منع کرنے کے باوجود ایک دم سے لالچ میں آجانا بھی تھوڑا ہضم نہیں ہوتا، عدیل اور اس کے باپ میں ”بونڈ“ بھی کوشش کے باوجود جم نہیں پاتا اور دی اینڈ تک ادھورا رہتا ہے لیکن فلم کا اینڈ کافی ہٹ کر اور نیا ہے جو دیکھنے والوں کو پسند آئے نہ آئے کافی مختلف ضرور لگے گا۔

باٹم لائن یہ کہ لال کبوتر ایک بار سینما میں ضرور جا کر دیکھنے والی فلم ہے اس کیلئے پوری ٹیم، اسٹار کاسٹ، ڈائریکٹر کمال خان، پروڈیوسرز ہانیہ اور کامل، ڈی او پی مو اعظمی، رائٹر علی عباس نقوی سمیت پوری ٹیکنکل ٹیم بھی مبارک کی مستحق ہے۔

اب بات دو بڑی غلطیوں کی ایک تو یہ کہ لال کبوتر جیسی فلم کیلئے 23 مارچ کی چھٹی کا انتظار نہیں کرنا چاہیے تھا، اس وقت فلم کو ”شیر دل“ کے مقابلے میں کافی کم شوز ملے ہیں اگر یہ فلم ایک ہفتے پہلے ریلیز ہوتی تو اس فلم کو زیادہ فائدہ پہنچتا کیونکہ اس فلم کو ”ورڈ آف ماؤتھ پبلسٹی “ ملے گی یعنی جو دیکھے گا وہ دوسروں کو دیکھنے کا بولے گا۔ 

فلم کی اسٹار کاسٹ — فوٹو: فلم آفیشل پیج

اس صورت میں اس فلم کو ایک ہفتے بعد بڑا ویک اینڈ اور لگ بھگ اتنے ہی شوز بلکہ شاید اس سے زیادہ شوز ملتے، اب اس ہفتے دو فلموں کا مقابلہ ہے اور آگے پروجیکٹ غازی بھی ریلیز ہورہی ہے۔

دوسری بڑی غلطی اس فلم کی ریٹنگ جنرل ہے یعنی ریٹنگ کے مطابق بچے بھی اس فلم کو دیکھ سکتے ہیں۔ اب جس نے اس فلم کا ”ٹریلر “دیکھا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ اس فلم کو بچوں کو دکھانابالکل صحیح نہیں تو بہت ساری تعداد میں فیملی آڈینس اس فلم سے دور رہے گی۔ 

اب جو طبقہ فلم میں خوب خون خرابہ گالیاں ”ہارڈ کور“ کرائم دیکھنے جائے گا وہ بھی بیپ بیپ سن کر تھوڑا غصے میں ضرور آئے گا کیونکہ یہ بیپ اس کا مزا بھی کر کرا کردیتی ہیں۔

ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ جنرل ریٹنگ اور بیپ کے باوجود اس فلم میں کچھ ایسے مناظر اور مکالمے ہیں جو فیملی آڈینس کیلئے شاید موزوں نہیں۔ ہمارے خیال میں اس فلم کو بنانے والوں کو 18 پلس ریٹنگ کے ساتھ آل آؤٹ جانا چاہیے تھا۔

اس کے ساتھ پاکستان میں فلموں کیلئے مکمل ریٹنگ کے نظام کی بھی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی تاکہ نا فلم بنانے والا کوئی سمجھوتہ کرے نا کوئی فلم دیکھنے والا۔

نوٹ :

1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا اور اُس فلم کیلئے کام کرنے والا، فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے۔

2۔۔ ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے۔ فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما پر ہی آتا ہے۔ آپ کے ٹی وی، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔

3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔

4۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں، آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔

5۔۔ فلم کے ہونے والے باکس آفس نمبرز یا بزنس کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے جو کچھ مارجن کے ساتھ کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوسکتا ہے۔

6۔۔ فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں، بڑی سے بڑی فلم ناکام اور چھوٹی سے چھوٹی فلم کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایک جیسی کہانیوں پر کئی فلمیں ہِٹ اور منفرد کہانیوں پر بننے والی فلم فلاپ بھی ہوسکتی ہیں، کوئی بھی فلم کسی کیلئے کلاسک کسی دوسرے کیلئے بیکار ہوسکتی ہے۔

7۔۔ فلم فلم ہوتی ہے، جمپ ہے تو کٹ بھی ہوگا ورنہ ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال، ڈھائی سو سال، ڈھائی سال، ڈھائی مہینے، ڈھائی ہفتے، ڈھائی دن تو دور کی بات دو گھنٹے اور اکتیس منٹ بھی سما نہیں سکتے۔

مزید خبریں :