بلاگ
Time 25 مارچ ، 2019

سمجھوتا ایکسپریس سانحے کے غمزدہ خاندان

فائل فوٹو

سمجھوتا ایکسپریس پر ہوئے وحشیانہ حملے کے بعد حیدرآباد کے رہائشی محمد سمیع کے لیے اس روز لاہور تک کا وہ سفر ایک انتہائی تکلیف دہ سفر تھا۔ 

سمجھوتا ایکسپریس سانحے نے سمیع کے والدین، بہن اور دو بھائیوں کو اس سے ہمیشہ کے لیے جدا کردیا، تاریخ میں سمجھوتا ایکسپریس جیسے اندہوناک اور وحشیانہ حملے کی مثال کم کم ہی دکھائی دیتی ہے، اس انسانیت سوز واقعے میں 42 پاکستانیوں سمیت 68 بے گناہوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا، بد قسمت ٹرین میں سوار تقسیم شدہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے یہ تمام مسافر پاکستان آرہےتھے، ان میں کچھ اپنے رشتہ داروں سے مل کر اور کچھ ملنے کی آس لگائے تھے۔ 

یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اس کیس کا فیصلہ جمعرات کو سنایا گیا اور مجھے یاد ہے کہ جمعرات ہی کے روز بربریت کا شکار پاکستانیوں میں سے پہلی 7 افراد کی لاشیں پاکستان لائی گئی تھیں، اس دن غمزدہ خاندانوں کا دکھ اور درد عروج پر تھا، غم سے نڈھال سمیع سے میری پہلی ملاقات اسی روز ہوئی، سمیع کا دکھ سمجھ آتا تھا کیوں کہ سمجھوتا ایکسپریس پر ہونے والے وحشیانہ حملے میں اس کا پورا خاندان ختم ہو چکا تھا۔

12 سال بعد بھارتی عدالت عظمیٰ نے انصاف کے نام پر فیصلہ دیتے ہوئے خون کی ہولی کھیلنے والے تمام مجرمان کو بری کر دیا،  بھارتی عدلیہ کے اس فیصلے نے مجھے مشہور انگریزی کہاوت یاد دلا دی کہ ’نا انصافی کہیں بھی ہو، انصاف کے لیے ہر جگہ خطرہ ہوتی ہے‘۔

سمجھوتا کے نام سے شروع کی جانے والی اس ٹرین کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کے لاکھوں منقسم خاندانوں کو ملانا تھا لیکن کسے معلوم تھا کہ یہی ٹرین ان کے پیاروں کو ہمیشہ کے لیے ان سے جدا کر دے گی، اس ٹرین سے سفر کرنے والے افراد کا تعلق متوسط اور غریب گھرانوں سے تھا۔

2007 میں کیے جانے والے اس بم دھماکے نے 1947 میں ہونے والی ہندو انتہا پسندی ، بربریت اور وحشیانہ پن کی یاد تازہ کردی کہ جب تقسیم ہند کے موقع پر ٹرینوں سے سفر کرکے پاکستان ہجرت کرنے والے ہزاروں مسلمان خاندانوں کا بہیمانہ قتل عام کیا گیا تھا۔

بھارتی عدلیہ کے ججوں نے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ مجرمان کے خلاف ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ اس حقیقت کے با وجود کہ دوران سماعت مجرمان نے جرم کا اقرار کیا تھا، عدالت کے اس فیصلے سے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف ہونے والی تحقیقات اور استغاثہ دونوں پر سنگین سوال اٹھتے ہیں۔

اس فیصلے کا وقت بھی اہم ہے کیوں کہ اگلے ماہ بھارت میں عام انتخابات ہو رہے ہیں اور کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ اس فیصلے کا براہ راست فائد حکمران ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوگا۔

تجزیہ کار اس خدشے کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ اس فیصلے سے بھارتی سماج میں انتہا پسندانہ سوچ کو فروغ ملے گا جہاں ہندو اعتدال پسندوں کو انتہاپسندی کے خلاف بات کرنے پر لیے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس کے علاوہ اگر بھارتی حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنا بھی چاہے تو کن بنیادوں پر، اور آخر میں کہ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار ملک میں بے دردی سے مسافر ٹرین بم دھماکے میں مارے جانے والے 68 افراد کے لواحقین کو کبھی انصاف مل سکے گا؟

فی الحال تو سمیع کی طرح درجنوں خاندانوں کے لیے سمجھوتا ایکسپریس سانحے پر بھارتی سپریم کورٹ کا 12 سال بعد سنایا گیا فیصلہ انتہائی تکلیف دہ ہونے کے ساتھ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔

اس دردناک واقعے کے بعد میں نے پہلی بار سمیع سے بات کی تو وہ ایک غم میں ڈوبا اور ایک بکھرا ہوا انسان تھا۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ اس نے روتے ہوئے مجھےسے کہا تھا کہ،’اس ایک دہشت گرد حملے میں میں نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے‘، اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اس سانحے سے ایک ماہ قبل ہی اپنے عزیزوں سے ملنے بھارت گیا تھا جب کہ اس کے خاندان کے دیگر افراد کو بعد میں آنا تھا۔

اس نے کہا کہ ’میں نے خود اس بد قمست ٹرین میں ان کی واپسی کی سیٹ بک کروائی تھی‘،  2007 کے بعد سمیع کبھی بھارت نہیں گیا، ’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ چند ہفتوں میں میری زندگی میں ایسی غمناک تبدیلی آ جائے گی، میں پھر کبھی بھارت نہیں گیا کیوں کہ اب مجھے ہندو انتہا پسندوں سے بھلائی کی کوئی امید نہیں اور نہ ہی مجھے اپنے رشتہ داروں سے دوبارہ ملنے کی امید باقی ہے‘۔

کراچی کے عبدالستار، جنہیں سب پیار سے ستار بھائی کہا کرتے تھے، کا شمار بھی بھارت جانے والے ان مسافروں میں ہوتا تھا جنہیں سمجھوتا ایکسپریس بہت پسند تھی، جب اس ٹرین سروس کا اعلان ہوا تو وہ بہت خوش تھے کہ اب غریب لوگوں کو سفر کی سہولت ہو جائے گی جو اس سے پہلے کسی عام ٹرین کے ذریعے لاہور جاتے، پھر واہگہ سے پیدل بارڈر کراس کرتے اور آٹاری سے دوبارہ ٹرین میں سفر کرتے، اس دوران انہیں کئی کئی گھنٹوں ٹرین کے انتظار کی صعوبت بھی برداشت کرنا پڑتی تھی۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ ایکسپریس ٹرین پر ہوئے حملے اور بم دھماکے کے بعد ستار بھائی نے کہا تھا کہ ’یہ کوئی عام بم دھماکا نہیں بلکہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے سمجھوتے اور امن پر شدت پسندوں کا کاری وار ہےجو پاکستان اور بھارت میں امن قائم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے اور وہ دونوں ملکوں میں بسے منقسم خاندانوں کے افراد کے ملنے کے بھی مخالف ہیں‘۔

سمجھوتا ٹرین ہو یا سمجھوتا بس سروس،   سب 2 پڑوسی ملکوں کے درمیان امن کی جانب قدم قرار دیا جاتا ہے، ان اقدامات سے نہ صرف دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں بلکہ ان میں رہنے والے افراد کو بھی اپنے عزیزوں سے ملنے اور سیر تفریح کے مواقع ملتے ہیں۔ اسی طرح کرتار پور راہداری کھولنے کی بات ہے جس سے سکھ برادری کے لاکھوں افراد کو اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کا موقع ملے گا۔

لیکن سمجھوتا ایکسپریس جیسے واقعات تناؤ کے ماحول میں کسی بھی طرح کی کمی کا باعث بننے والے ان اقدامات کو شدید نقصان پہنچاکر اس کا راستہ ہی روک دیتے ہیں۔ 

بھارت میں ہندو انتہا پسندی کا آغاز 90 کی دہائی میں ہوا جب نفرت کا پرچار کرنے والی ذہنیت کے لوگ سیاست میں آگے آئے اور عوام کے ووٹ لینے کے لیے ہندو میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز خیالات کو بھڑکایا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے پیچھے نریندرا مودی ہی کا ہاتھ تھا، ہندو انہ ذہنیت نے مودی جیسے انتہا پسند کو بھارت کا وزیراعظم بنا دیا، مودی کے اپنے پیش رو اٹل بہاری واجپائی کے برعکس مسلمانوں کے مخالف اور شدت پسند ذہنیت ہے۔

دونوں دشمن اور جوہری ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ پلواما حملے کے بعد ہوا جس میں 50 بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد بھارت نے ہمیشہ کی طرح بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور تحقیق کیے پاکستان پر اس کا الزام عائد کر دیا۔ 

تاہم پاکستان نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بھارت سے ثبوت فراہم کرنے کا کہا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے بھارتی ہم منصب کو یقین دلایا کہ اگر انڈیا نے ٹھوس ثبوت فراہم کیے تو وہ مجرمان سخت ترین سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ 

عمران خان نے کشمیر سمیت تمام معاملات پر بات چیت کے مؤقف کو دھراتے ہوئے مذاکرات کا عمل شروع کرنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گردی کے مسئلے پر بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

حالیہ دنوں میں جارحیت کی بھارتی دھمکیوں اور بالاکوٹ پر فضائی حملے کی خبروں کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا جس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کا مگ 21 طیارہ مار گرا کر اس کے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا۔ 

تاہم کشیدگی کم کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے پائلٹ کو بھارت کے حوالے کردیا۔پاکستان کے امن دوست اقدام کے بعد کشیدہ صورت حال میں کسی حد تک کمی آئی اور سمجھوتا ایکسپریس کی آمد رفت بحال ہوگئی تاہم مسافروں کی تعداد میں واضح کمی ہوگئی جس کی ایک وجہ دونوں ملکوں کے درمیان غیر یقینی اور کشیدہ تعلقات تھے تو دوسری بڑی وجہ بھارت کا پاکستانیوں کی ویزہ درخواستیں مسترد کرنا ہے۔ اسی گو مگوں صورت حال میں کرتارپور راہداری کھولنے کے معاملے پر بات چیت کا دوبارہ آغاز ہوا لیکن امن کی بات کریں تو یہ ابھی ایک خواب ہی ہے۔

امن کی حمایت کرنے والے حلقوں کا خیال ہے کہ 2007 میں کیا گیا سمجھوتا ایکسپریس بم دھماکا دراصل دونوں ملکوں کے درمیان بے امنی اور کشیدگی میں اضافے کے ساتھ امن کی کسی بھی آواز کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی سازش کا اثر آج تک ختم نہیں کیا جا سکا۔

سمجھوتا ایکسپریس پر کیے گئے بم حملے کے کیس کے مجرمان کو عدالت کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کر چکنے کے باوجود بریت کا فیصلہ امن پسندوں کے نزدیک مایوس کن ہے۔

اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ نا صرف انصاف کا قتل ہے بلکہ بے گناہ مارے جانے والوں کے لواحقین کے ساتھ زیادتی ہے جو حقیقی انصاف نہیں تو کم از کم کچھ انصاف کی امید لگائے ہوئے تھے لیکن بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے ان کے زخموں پر نمک پاشی کر کے دکھی اور تکلیف یادوں کا تازہ کردیا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔