آپریشن دوارکا

فائل فوٹو

رواں سال پاکستان یومِ دفاع ایک ایسے ماحول میں منارہا ہے، جب روایتی دشمن بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی تاریخی اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ انفرادی حیثیت کو مسخ کرتے ہوئے اسے یونین کا حصہ بنا دیا ہے۔

تاہم اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے حواریوں کے لیے ستمبر کا مہینہ یہ بات یاد دِلانے ایک بار پھرسے آچکا ہے کہ بھارت کے ناپاک عزائم کو سر اُٹھاتے ہی کُچل دیا جائے گا۔ 1965ء میں ایسا ہوچکا ہے اور اگر بھارت نے ایک بار پھر ایسی کوئی حرکت کرنے کی کوشش کی تو اس بار جواب کہیں زیادہ سخت ہوگا۔ 

ستمبر کا مہینہ، پاکستان کی بھارت کے خلاف تاریخ ساز فتح کا مہینہ ہے۔ 6ستمبر1965ء کو بھارت نے طاقت کے نشے میں مست ہو کر عالمی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا، جس کا بَری اور فضائی افواج کے ساتھ پاک بحریہ نے بھی ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ بھارت آج تک اس جنگ میں لگنے والے زخموں کو چاٹ رہا ہے۔

6ستمبر1965ء کی صبح جنگ کے آغاز اور اس میں ہونے والی تباہ کاریوں کی خبریں پاکستان بھر میں آگ کی طرح پھیل گئیں۔ اسی وقت پاکستان نیوی کے بحری جنگی جہاز، کروز، سرنگوں کو تباہ کرنے والے 5جنگی جہاز اور ٹینکر معمول کی مشقوں کے لیے روانہ ہونے والے تھے مگر جنگ کی خبروں کے باعث روانہ ہونے میں کسی حد تک جلدی کی گئی۔ ایک ماہ قبل رن آف کچھ میں ہونے والی جھٹرپ کی وجہ سے جنگی جہاز پہلے ہی انتہائی تیاری کی حالت میں تھے، صرف ان پر گولہ بارود اور عملے کی خوراک لوڈ کی گئی۔

جنگ کے آغاز کے دوسرے دن 7ستمبر کو اپنے ساحل کے دفاع کے لیے جنگی جہاز حفاظتی گشت پر مامور تھے کہ اس دوران نیول ہیڈکوارٹرز کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں ہدایت کی گئی کہ جتنی تیزی سے ممکن ہو جنوبی دوارکا سے مغرب میں 120میل کی طرف بڑھیں اور شام 6بجے تک پوزیشن سنبھال لیں۔ آپریشن کی قیادت کموڈور ایس ایم انور کررہے تھے۔

پاک بحریہ نے دفاعی جنگ لڑنے کی بجائے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ 7ستمبر کی شام کو جب پاک بحریہ نے کراچی سے پونے دو سو میل دور اپنی منزل کی طرف سفر شروع کیا تو بپھرا ہوا بحیرہ عرب بھی اپنی پُرشور موجیں سمیٹ کر ان کے راستے سے ہٹ گیا۔ غازیوں کا یہ قافلہ نصف شب کو اپنی منزل پر پہنچ گیا۔

دوارکا میں بھارتی بحریہ کا ریڈاراسٹیشن اورفضائی اڈہ تھا۔ پاک بحریہ کے جہازوں میں پی این ایس بابر، پی این ایس بدر، پی این ایس خیبر، پی این ایس جہانگیر، پی این ایس عالمگیر، پی این ایس شاہجہاں اورپی این ایس ٹیپو سلطان شامل تھے۔

شیڈول کے مطابق، پاکستان نیوی کے 7جہازوں کے گروپ نے نصف شب کو فائرنگ پوزیشن پر پہنچ کر پوزیشنیں سنبھال لیں، ان کے ساتھ27گنز تھیں۔ ایک کروز بابر کے پاس 5.25″ ٹورٹس، دو جنگی کلاس ڈِسٹرائرز، پی این ایس خیبر اور بدر کے پاس 4.5″ ٹورٹس تھے۔ تین چوکر کلاس 4.5″ ڈِسٹرائرز مونٹنگز تھیں جبکہ ایک فریگیٹ ٹیپوسلطان 4″ مونٹنگز تھی۔ جہازوں نے شمال مغرب کی جانب رُخ کیا تاکہ تمام گنوں سے بیک وقت فائرنگ کو ممکن بنایا جا سکے۔ چند منٹوں میں اللہ اکبر کی صداؤں میں ساڑھے چار منٹ تک مسلسل بمباری کرکے 50،50 راؤنڈز فائر کیے، مطلوبہ ہدف تباہ کیا اور دشمن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا۔

اس کامیاب آپریشن میں ایک جانب تو بھارت کے کراچی پر حملے کے منصوبہ کوناکام بنا دیا گیا تو دوسری جانب دو بھارتی افسر اور13 سیلرز بھی ہلاک کردیے۔ اس کے علاوہ رن وے کو بھی مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا، جب کہ انفرااسٹرکچر اور سیمنٹ فیکٹری کو بھی راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اس اچانک حملے پر بھارتی کمان حیران تھی، تاہم اس مشن میں پاک بحریہ کو کئی خطرات بھی لاحق تھے لیکن پاک بحریہ کے جوانوں نے اپنے جذبۂ شہادت اور مشن کی تکمیل کے لیے ان تمام خطرات کی بالکل بھی پروا نہ کی۔

اس جنگ میں پاک بحریہ کو امریکی ساختہ آبدوز ’غازی‘ کی شکل میں بھارت پر سبقت حاصل تھی، ایسی آبدوز پورے خطے میں موجود نہ تھی۔ دوسری جانب اس جنگ میں برادر دوست ملک انڈونیشیا کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت کے صدر سوئیکارنو نے پاکستان کی مدد کے لیے فوری طور پر دو آبدوزیں اور دو میزائل بردار کشتیاں روانہ کیں لیکن اس وقت تک پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہو چکی تھی۔

سمندر میں پاک بحریہ نے جنگ کے آغاز پر ہی بھارتی نیوی کو دوارکا کے مقام پر جا لیا اور اسے ہلاکتوں کے علاوہ جانی ومالی نقصان پہنچایا اور بھارتی نیوی کو غیر یقینی کیفیت میں ڈال کر محدود کر دیا۔ یہ پاکستان کی قومی اور عسکری تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جانے والا ایک عظیم واقعہ ہے۔

آپریشن دوارکا بحری تاریخ کا ایک سنہرا باب،پاکستان کے سمندری محافظوں کا عظیم کارنامہ اور رہتی دنیا تک بھارتی غرورپر طمانچہ ہے۔

پاک بحریہ ایک خاموش دفاعی قوت ہے، ہمارے بحری محافظ ساحلوں سے دور سمندروں کی سطح اور گہرائی میں اپنا مشن بلا تعطل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک آبدوزجب زیرِ آب سینکڑوں میٹر گہرائی میں آپریشن کرتی ہے تو وہ نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے لیکن دشمن کیلئے ہر لمحہ خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔ وطنِ عزیز کے دفاع، آبی سرحدوں کی نگرانی اور اب سی پیک کے تناظر میں پاک بحریہ کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے

مزید خبریں :