28 ستمبر ، 2019
آپ کو نیب نے کب بلایا ہے؟ میں نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے زرداری ہاؤس اسلام آباد میں 18ستمبر بدھ کی رات سوال کیا۔ اس روز وہ خصوصی طور پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت پارٹی کے کور کمیٹی اجلاس میں شرکت کے لیے کراچی سے اسلام آباد آئے تھے۔
دن کو پیپلز پارٹی کے ہی ایک اور سینئر رہنما سید خورشید شاہ کو نیب نے اسلام آباد سے گرفتار کیا تھا۔ اسی لیے ماحول کی سراسیمگی میں اضافہ ہو چکا تھا۔ مراد علی شاہ بھی جعلی اکاؤنٹس کیس میں نیب کی تفتیش کا سامنا کر رہےہیں۔ مجھے جولائی میں نیب کے ایک کرم فرما نے بتا رکھا تھا کہ جونہی آصف زرداری جیل جائیں گے اسی وقت پیپلز پارٹی کے باقی رہنمائوں کی وقفے وقفے سے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اب زرداری جیل منتقل ہو چکے ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ کالے رنگ کی شلوار قمیص میں ملبوس تھے۔ سوال سنتے ہی مسکرائے اور بتایا کہ نیب والے ہفتہ پندرہ ستمبر کی شب ہی وزیراعلیٰ ہاؤس آئے تھے۔ اسٹاف نے ان سے سمن کی نقل وصول کرلی ہے جس کے مطابق انہوں نے 24ستمبر کو اسلام آباد میں طلب کیا ہے۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ وہ نیب ضرور جائیں گے، انہیں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں کیونکہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔
وزیراعلیٰ سندھ کو نیب ماضی میں بھی ایک آدھ بار اسلام آباد طلب کر چکا ہے لیکن اس بار ان کی طلبی کا مقصد ہی کچھ اور تھا۔ ظاہر ہے وزیراعلیٰ سندھ کو گرفتار کرنے کے لیے نیب یا کوئی بھی وفاقی ادارہ کراچی میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کر سکتا کیونکہ ایسا کرنا ایک سیاسی و صوبائی طوفان کو دعوت دینے کے مترادف تو ہوگا ہی لیکن اگر عوام کی کثیر تعداد اکٹھی ہوگئی تو انہیں اسلام آباد لانا ایک انتظامی مسئلہ بھی بن جائے گا۔ ویسے نیب والے عوامی سے زیادہ انتظامی مسائل سے بچتے ہیں۔
تین روز بعد وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کو کسی نے نیب کے ارادوں کے بارے میں آگاہ کیا تو انہوں نے اسلام آباد آنے کا فیصلہ بدلتے ہوئے تحریری طور پر ایک نئی تاریخ مانگ لی۔ حکمت جذبات پر حاوی رہی، ہونا بھی ایسا ہی چاہئے۔ تادمِ تحریر انہیں پیشی کی نئی تاریخ نہیں دی گئی۔
شاید حکمت عملی تبدیل کی جا رہی ہے۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے بارے میں یہ واضح ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی سے غداری کرنے سے انکار کیا ہے۔ وہ ہر کسی کی ہر بات نہیں مانتے۔ شاید آج یا کل ان کی گرفتاری کی ایک وجہ پارٹی سے عدم بغاوت بھی ہوگی۔ اس بار سندھ میں ایک اور باریک کام بھی جاری ہے۔
اطلاعات کے مطابق اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی کچھ اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ انہیں پیپلز پارٹی کے اندر ایک گروپ کے قیام کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ انفرادی طور پر کچھ ارکانِ سندھ اسمبلی کو بھی بغاوت کے لیے کہا گیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے خلاف بغاوت کے لیے پندرہ ارکان کی ضرورت ہے اور اب تک صرف پانچ چھ کا بندوبست ہی ہو پایا ہے۔ کام مگر جاری ہے۔
پیپلز پارٹی نے بھی فیصلہ کر رکھا ہے کہ اگر مراد علی شاہ گرفتار ہوئے تو وہ نیا وزیراعلیٰ نامزد نہیں کرے گی۔ نیب کی کسٹڈی میں بھی مراد علی شاہ وزیراعلیٰ ہی رہیں گے اور جیل بھیجے گئے تو بھی۔ یہ نیب اور اس کے سرپرستوں کو بے نقاب کرنے کا ایک دلچسپ اور انوکھا طریقہ ہوگا۔
دوسری طرف پنجاب میں مسلم لیگ نون مسلسل زیر عتاب ہے۔ کچھ افراد آج بھی مسلم لیگ نون سے ڈیل کی باتیں کر رہے ہیں۔ غالباً اگست کے آخری ہفتے کی بات ہے۔ کیپٹن صفدر اور مریم صفدر کا نوجوان بیٹا جنید صفدر سابق وزیراعظم نواز شریف کی والدہ جنہیں وہ آپی جان کہتے ہیں، کو لے کر لاہور جیل گیا۔ ان دنوں نواز شریف سے جیل میں مبینہ ملاقاتوں کی خبریں عام تھیں۔
نواز شریف کی والدہ اور جنید صفدر نے ان ملاقاتوں کے بارے میں سوال کیا تو سابق وزیراعظم نے کہا ’’میں نے ڈیل خدا سے کر رکھی ہے اور کسی سے کرنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ ابھی تک نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز قید میں بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ اگر ڈیل ہوئی بھی تو وہ ان کی شرائط پر ہوگی نہ کہ کسی اور کی۔
نواز شریف کے مقابلے میں شہباز شریف ڈیل کے لیے ہردم تیار ہیں بلکہ وہ اپنے بڑے بھائی کو منانے کے لیے اپنی والدہ کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ نظریاتی تصادم کے باوجود چھوٹا بھائی بڑے کے خلاف بات سننا گوارا نہیں کرتا۔ باہمی اتفاق دونوں کے ماں باپ کی تربیت ہے جو شاید ابھی تک پارٹی اور خاندان دونوں کو ٹوٹنے سے بچائے ہوئے ہے۔
شہباز شریف جونہی بھائی کے معاملے پر بے بس ہوتے ہیں ان کے خلاف ایک اور کیس کھول دیا جاتا ہے۔ مگر سچ یہ بھی ہے کہ شہباز شریف صرف ڈرائنگ روم کی سیاست جانتے ہیں۔ اپنے بھائی کے برعکس وہ عوامی آدمی تھے، نہ ہیں۔ طاقت کے سامنے جھک جانے کی شہباز شریف کی عادت بدلی ہے نہ مزاحمت کرنے کی نواز شریف کی سرشت۔ سندھ اور پنجاب میں کھیل جاری ہے۔ جو سیاسی رہنما جیلوں میں ہیں انہیں اپنے مقدمات اور ان کی سمت کا واضح طور پر پتا چل رہا ہے مگر باقی اپنی باری کے منتظر ہیں۔
اس وقت نیب کی فائلوں میں سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف 12ریفرنسز موجود ہیں، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف بھی ایک ریفرنس اور مختلف تحقیقات جاری ہیں۔ شہباز شریف کے علاوہ تین صوبائی وزرا اعلیٰ اکرم درانی ،اسلم رئیسانی اور سردار ثناء اللہ زہری کے خلاف نیب کیسز موجود ہیں۔اسی طرح کیپٹن ریٹائرڈ صفدر، امیر مقام، اعجاز جاکھرانی، وسیم اختر میئر کراچی، سہیل انور سیال وغیرہ پر بھی کیسز نیب کی پوٹلی میں موجود ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک سندھ میں ’اک زرداری سب پہ بھاری‘ کا نعرہ لگایا جاتا تھا لیکن لگتا ہے اب پورے ملک میں ایک نیا نعرہ لگایا جا رہا ہے۔ اگلی باری۔ کس کی گرفتاری؟