Time 19 اکتوبر ، 2019
پاکستان

کشمیر۔ اب کیا ہوگا؟

مودی نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کیا_  فائل فوٹو

پینسٹھ کی جنگ ہوئی،اکہتر کی جنگ ہوئی ، کارگل کی جنگ ہوئی، اس کے علاوہ بھی ایسے مواقع آئے کہ پاکستان اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے آئیں لیکن کبھی بھارتی حکمران یہ جرات نہ کرسکےکہ مقبوضہ کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرلیں تاہم تاریخ میں پہلی بار نریندرمودی نے احمقانہ انداز میں یہ ہمت کرلی اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کیا۔

اسی طرح تقسیم ہند کے بعد سے بھارتی حکمران کشمیریوں پرمظالم ڈھارہے ہیں لیکن تاریخ میں پہلی بار پوری وادی میں کرفیو لگا کر پورے مقبوضہ کشمیر کو ایک بڑے عقوبت خانے میں تبدیل کیا گیا۔

گزشتہ بہترسالوں کے دوران حکومت پاکستان کی یہ کوشش رہی کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی افق پر لاکر انٹرنیشنلائز کردے جبکہ بھارت اسے دباتا اور دو طرفہ مسئلہ قرار دیتا رہا ۔

ماضی قریب میں ہندوستان دو طرفہ مسئلہ ہونے سے بھی انکاری ہوگیا تھا اور وہ اسے بھارت کا اندرونی مسئلہ قرار دینے لگا۔ اب مودی سرکار نے جس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اس کی وجہ سے مسئلہ کشمیر خود بخود پہلی بار عالمی ایشو بن گیا ۔

امریکی اور عالمی میڈیا میں اس کا تذکرہ ہونے لگا اور چین کے ایما پر اسے سلامتی کونسل کے غیررسمی اجلاس میں زیر بحث لایا گیا۔ مذکورہ تناظر میں یہ کہا جارہا تھا کہ مودی سرکار نے پاکستان کی طرف لوز (Loose)بال پھینک دی ہے اور اب اس پر چھکا لگانا ہمارا کام ہے اور اسی تناظر میں یہ کہا جارہا تھا کہ آزادیٔ کشمیر ۔ اب یا کبھی نہیں ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ مودی کی اس لوز بال پر پاکستان نے کتنے رنز بنا دئیے؟ اور میرے نزدیک چونکہ چھکا چوکا تو دور کی بات ہماری سرکار ایک رن بھی نہ بناسکی بلکہ ایک ناکام بیٹسمین کی طرح بھارت کی طرف سے ایک اور گیند کا انتظار کرنے لگی ہے۔

میرے نزدیک بال پر چھکا لگانے کا موقع ضائع کرنے کی سب سے بڑی وجہ اپنے زورِ بازو پر انحصار کی بجائے امریکہ جیسی قوت کو امپائر سمجھنے اور اس پر بے جا تکیہ تھا۔

وزیراعظم کے پہلے دورہ امریکہ کے موقع پر میں بھی واشنگٹن میں تھا اور وہاں سے یہ دہائی دیتا رہا کہ جو کچھ ہورہا ہے، مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی باہمی مشاورت سے ہورہا ہے ۔ اس کے لئے بطورثبوت یہ حقیقت سامنے لاتا رہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کا شوشہ عمران خان کے ساتھ ملاقات کے اختتام پر نہیں بلکہ آغاز پر چھوڑا جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں کشمیر سے متعلق کوئی منصوبہ پہلے سے موجود ہے ۔

ہم جیسے طالب علم متنبہ کرتے رہے کہ امریکہ نے بھارت سے کہہ دیا ہے کہ مغربی سرحد پر افغانستان میں پاکستان کو رول دینے کے بدلے میں مشرقی سرحد پر اسے اکاموڈیٹ کردیاجائے گا لیکن تب ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی خوشی اتنی زیادہ تھی کہ ہمارے حکمران آپے سے باہر ہورہے تھے۔

لیکن ٹرمپ کی ثالثی کے اعلان کے چند روز بعد جب نریندرمودی نے کشمیر کو ضم کرنے کا اعلان کیا تو امریکہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔پھر جب جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے ان سے کشمیر کے معاملے پر کردار ادا کرنے کی التجا کی تو ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر پاکستان کوخاموش رہنے کی نصیحتیں شروع کردیں کہ ان کا یار مودی نہیں مان رہا۔ چنانچہ امریکہ کے رویے سے مایوس ہوکر ہی عمران خان صاحب نے جنرل اسمبلی میں جارحانہ تقریر کی لیکن تقریر سے کیا ہوتا ہے۔

کشمیر کا مسئلہ مودی کی جنونیت کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار انٹرنیشنلائز ہوگیا تھا لیکن یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ پاکستان اس سے متعلق اسلامی ممالک کی تنظیم کا اجلاس تک منعقد نہ کروا سکا۔

حالانکہ اس کی سربراہی ان دنوں اُس سعودی عرب کے پاس ہے جس کے دفاع کے لئے ہم نے جنرل راحیل شریف کو بھجوا رکھا ہے اور جس کے غم میں آج ہم اپنے کشمیر کے مسئلے کو چھوڑ کر ایران کے ساتھ اس کی ثالثی کروارہے ہیں۔

امریکہ کے ساتھ دوبارہ پینگیں بڑھا کر ہم نے روس کو بھی ناراض کیا اور شاید اس وجہ سے اس کے وزیرخارجہ نے اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا۔

مودی نے کشمیر کو عالمی ایشو بنادیاتھا لیکن ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی اس قدر رہی کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تمام اسلامی ممالک میں سے صرف دو ممالک (ترکی اور ملائیشیا) جبکہ باقی دنیا میں صرف چین کے وزیرخارجہ نے کشمیر کا ذکر کیا۔

سلامتی کونسل کا غیررسمی اجلاس اس کے ایما پر بلایا گیا ہم اس سے کشمیر سے متعلق قرارداد پاس نہ کرواسکے مگر اب جب چین کے صدر بھارت کے دورے پر گئے تو بھارتی دعوے کے مطابق اس دورے میں کشمیر پر بات ہی نہیں ہوئی۔

شاید چینی صدر نے سوچا ہوکہ جب خود پاکستانی وزیراعظم کشمیر کو چھوڑ کر اب سعودی عرب اور ایران کی ثالثی میں مگن ہوگئے ہیں تو وہ کیوں اس مسئلے پر مودی کو ناراض کریں۔گویا اقوام متحدہ سے کچھ نہیں ملا۔ او آئی سی سے کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن سے قرارداد تک پاس نہ ہوسکی۔

مودی اپنے فیصلے کو واپس لینے پر آمادہ ہے اور نہ کوئی عالمی طاقت ان پر دباؤ ڈالنے کے لئے تیار ہے ۔ کشمیری بدستور بھارتی ظلم کا شکار ہیں تو سوال یہ ہے کہ اب ریاست پاکستان کے پاس کیا آپشن ہے اور کشمیریوں کو اس ظلم سے نجات دلوانے کے لئے ہمارے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟ مجھے تو حکومت کی جانب سے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا لیکن اگر کسی کے پاس ہے تو مجھے ضرور مطلع کرے۔

مجھے تو لگتا ہے کہ اس حوالے سے ناکامی کے بعد اب وزیراعظم عمران خان توجہ ہٹانے کے لئے ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی کا ڈھونگ رچا رہے ہیں ۔ ہم شاید ان دونوں کے مابین ثالثی نہیں کرسکتے کیونکہ ہم سعودی عرب سے کوئی بات منواسکتے ہیں اور نہ ایران سے لیکن اگر سعودی عرب اور ایران چاہیں تو وہ پاکستان اور بھارت کے مابین کردار ادا کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہیں ۔

اب وہ دونوں تو ہماری ثالثی نہیں کر رہے ہیں لیکن ہم تیس مار خان بن کر ان کی ثالثی کرنے چلے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ بھارتی ظلم و تشدد اور کرفیو کے شکار کشمیری جب اب دیکھیں گے کہ پاکستان کے وزیراعظم ان کو کوئی ریلیف دلوائے بغیر دیگر ممالک کے تنازعات حل کرنے چلے ہیں تو وہ کیا سوچیں گے ؟

مزید خبریں :