ایل این جی کیس: احتساب عدالت کی عدالتی کارروائی کا احوال


ایل این جی کیس میں گرفتار سابق وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور سابق ایم ڈی پی ایس او عمران الحق کو جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے پر جیل سے لا کر احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے روبرو پیش کیا گیا۔

 سماعت شروع ہوئی تو  بیرسٹر ظفر اللہ نے عدالت سے استدعا کی کہ سماعت سے قبل شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اجازت دی جائے، مفتاح اسماعیل کے وکیل نے بھی اپنے موکل سے ملاقات کی اجازت طلب کی جسے عدالت نے منظور کر لیا۔

شاہد خاقان عباسی کے اہل خانہ کو جج کی مداخلت پر کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت ملی۔

سعدیہ عباسی نے روسٹرم پر آ کر بتایا کہ شاہد خاقان عباسی کے اہل خانہ کو کمرہ عدالت میں داخلے سے روک دیا گیا ہے۔ فیملی ممبرز کو عدالت نے کورٹ روم آنے کی اجازت دے رکھی ہے، پھر ایسا رویہ کیوں اختیار کیا جا رہا ہے؟

جج احتساب عدالت نے عدالتی عملے کو ہدایت کی کہ شاہد خاقان عباسی کے جن فیملی ممبرز کے نام لسٹ میں شامل ہیں انہیں کمرہ عدالت میں آنے دیں۔

مصدق ملک اور عدالتی عملے میں تکرار

ابھی سماعت کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا کہ عدالتی اہلکار نے جج کو شکایت کی کہ مصدق ملک نے کمرہ عدالت میں داخلے کے وقت انہیں گالیاں دی ہیں۔

سینیٹر مصدق ملک کو روسٹرم پر بلا یا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ کمرہ عدالت کے داخلی دروازے پر ڈیوٹی پر مامور عدالتی اہلکار نے بدتہذیبی کی اور دھکے مارے ہیں۔

جج نے استفسار کیا کہ گالیاں کیوں دی ہیں؟ گالی تو نہیں دینی چاہئے۔ مصدق ملک نے کہا انہیں کہیں کہ یہ قرآن پر حلف اٹھائیں، میں بھی حلف اٹھاتا ہوں کہ گالیاں نہیں دیں جس پر معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔

شاہد خاقان عباسی کا کمرہ عدالت میں روسٹرم پر بیان

سماعت کا آغاز ہوا تو شاہد خاقان عباسی روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ میڈیکل بورڈ نے سرجری کرانے کی سفارش کی ہے، میں اپنے خرچے پر شفا انٹرنیشنل اسپتال سے علاج کرانا چاہتا ہوں، اپنے خرچے پر مرضی کے اسپتال سے سرجری کرانے کی اجازت دی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ سال سے تفتیش ہو رہی ہے، 100 دن سے قید ہوں، ابھی تک چارج بھی فریم نہیں ہوا۔ استدعا ہے کہ عدالتی کارروائی کی ٹی وی چینلز پر لائیو کوریج دکھائی جائے، تمام پاکستان دیکھے کہ منتخب نمائندے کتنے کرپٹ ہیں۔

جج نے استفسار کیا کہ عدالت میں ٹرائل کی لائیو کوریج کیسے ہو سکتی ہے؟ بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ بیرون ملک کئی عدالتوں کے ٹرائل لائیو دکھائے جاتے ہیں۔ جج نے کہا لاہور ہائی کورٹ نے لائیو کوریج سے منع کر رکھا ہے، آپ لاہور ہائی کورٹ کا حکم پڑھ لیں موجود ہے۔

شاہد خاقان کا جیل سہولیات واپس کرنے کا بیان

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جیل میں سہولیات ملنے سے وزیراعظم اور وزیر اعلی پریشان رہتے ہیں، ان کی پریشانی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی، سوچتا ہوں کہ سہولیات واپس کر کے ان کی پریشانی ختم کر دوں۔

شاہدخاقان عباسی نے استدعا کی کہ مجھے جیل میں کیس کی تیاری کے لیے لیپ ٹاپ کی سہولت دی جائے جس کی نیب پراسیکیوٹر نے مخالفت کی اور کہا کہ قانون کے مطابق جیل کے قیدی کو لیپ ٹاپ کی سہولت نہیں دی جا سکتی، جس پر شاہد خاقان عباسی نے جواب دیا کہ اگر مجھے کیس میں دفاع کے لیے لیپ ٹاپ کی سہولت نہیں مل سکتی تو ان سے بھی کہیں کہ لیپ ٹاپ کے بغیر ریفرنس بنائیں۔

جیل حکام کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کی استدعا

مفتاح اسماعیل کے وکیل حیدر وحید عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ کسی بھی ملزم کو بلاوجہ ایک دن بھی جیل میں نہیں رکھا جا سکتا مگر قوم کی خدمت کرنے والے بغیر کسی چارج کے جیل میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مفتاح اسماعیل کو شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی گئی، دونوں کی اتوار کو جیل میں ملاقات کرانے کا بیان عدالت میں دیا گیا تھا مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا اس لیے جیل حکام کو شوکاز نوٹس جاری کیا جائے۔

عدالت نے ایل این جی کیس میں گرفتار تینوں ملزمان کو اتوار کو ملنے کی اجازت دے دی، وکلاء کو بھی ملزمان سے ملاقات کے لیے جیل حکام کو ایک دن مقرر کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے جیل حکام سے شاہد خاقان عباسی کی میڈیکل رپورٹ طلب کرتے ہوئے ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 19 نومبر تک توسیع کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

مزید خبریں :