16 دسمبر ، 2019
وکلا کا ٹولیوں کی صورت اسپتال میں داخل ہونا، غصے سے لبالب بھرے، ہاتھوں میں ڈنڈے، نرس، ڈاکٹر، کمپوڈر، مریض، مریضوں کے تیماردار، جو سامنے چڑھا، دھکے، مکے، مارپیٹ، مین ہال کے شیشے ٹوٹے، وکلا کا ایمرجنسی گیٹ توڑنا، آئی سی یو، آپریشن تھیٹرز میں داخل ہونا، مریضوں کے منہ سے ماسک اتار پھینکنا، کمپیوٹرز، مشینوں پر ڈنڈے برسانا، آکسیجن گیس سلنڈر اٹھا اٹھا پھینکنا، وکلا کا نعرے مارنا، آج ڈاکٹروں کے بائی پاس ہونگے، آج دل کے ڈاکٹروں کے دل میں اسٹنٹ ہم ڈالیں گے، کچھ ڈاکٹرز، وکلا کے ہتھے چڑھے، کچھ جان بچا کر بھاگے، دل کے مریض، مریضوں کے لواحقین حیران، پریشان، خوف زدہ، وکلا کا جب تک دل چاہا دل کے اسپتال کو پانی پت کا میدان بنائے رکھا، فیاض چوہان کو پھینٹی لگی، یاسمین راشد اسپتال گیٹ کے باہر کھڑی رہیں، پولیس وین جلی، 30گاڑیوں کو نقصان پہنچا، تین، چار یا چھ افراد مرے، معذرت، مرنے والوں کی اصل تعداد نہیں بتا سکتا، بتاؤں بھی کیسے، یہ غریب، غریب زندہ ہو کسی شمار میں نہیں، غریب مرے کسی شمار میں نہیں، امیروں کے پلیٹ لیٹس قوم کو ازبر، غریب کتنے مرے، کچھ پتا نہیں، یہ بھی سنا جارہا، وکلا اسپتال کا 7کروڑ کا نقصان کر گئے۔
یہ یاد رہے، وکلا کی اس لشکر کشی کا ایک بیک گراؤنڈ، وکلا، ڈاکٹروں کی لڑائی پچھلے ماہ 20نومبر سے جاری، تلخ کلامی، توتو، میں میں اور ایک حق و باطل کے معرکے میں ڈاکٹروں کا وکلا کو مارنا، پھر اس مار پیٹ کے بعد ایک ڈاکٹر کا اس لڑائی اور اس لڑائی کے بعد وکلا کی بےبسی پر ٹھٹھے مذاق، جگت بازی، شعر وشاعری بھرا ایک وڈیو کلپ کا سامنے آنا، تناؤ بڑھنا، چند بڑوں کا درمیان میں پڑنا، وکلا، ڈاکٹروں کی صلح کروانا، جپھیاں ڈلوانا، اسی دوران چند جوشیلے وکلا کا نہ ماننا، بدلہ لینے کا اعلان، یوں 5سو سے زائد وکلا کا اسپتال پر حملہ آور ہونا، بدلہ لے لینا۔
یہ بھی یاد رہے، یہ لاہور، سائیں بزدار حکومت کا دارلحکومت، اسپتال حملے سے ایک دن پہلے اسپیشل برانچ کا رپورٹ دینا کہ وکلا کا بڑا احتجاج ہونے جارہا اور یہ احتجاج پر تشدد ہو سکتا ہے، یہ رپورٹ کہاں گئی، کچھ پتا نہیں، وکلا ایوان عدل میں اکٹھے ہوئے، وہاں سے جلوس کی صورت میں مال روڈ پر آئے، وہاں سے اسپتال پہنچے، اس کارروائی کو 3گھنٹے لگے، ان 3گھنٹوں میں پنجاب حکومت خراٹے مارتی رہی، جب وکلا لشکر کشی ہو چکی، حکومت ہڑبڑا کر اٹھی۔
نہ صرف شہر بھر میں رینجرز منگوا لی بلکہ آئی جی نے آئی جی آفس سیکورٹی بھی رینجرز کے حوالے کر دی، اندازہ کریں، لاہور میں 30ہزار پولیس فورس، غریبوں کیلئے پولیس یوں بہادر کہ رکاوٹیں ہٹانے جائے تو ماڈل ٹائون میں 14بندے مار دے، دہشت گردی کے شبہے میں معصوم بچوں کے سامنے ماں باپ مار کر سانحہ ساہیوال کردے، صلاح الدین کو دورانِ تفتیش پھڑکا دے مگر جب سامنا وکلا سے، آئی جی صاحب اپنی سیکورٹی بھی رینجرز کے حوالے کر دیں۔
اب بات جسٹس باقر نجفی کے ریمارکس کی لیکن اس سے پہلے جہاں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہرمن اللہ، لاہور ہائیکورٹ کے باکمال جج جسٹس سید مظاہر علی نقوی، چوہدری اعتزاز احسن، جیو کے پروگرام رپورٹ کارڈ کے اپنے ساتھی، معروف وکیل بابر ستار قابل تحسین جو اس وکلا گردی پر سچ کے ساتھ کھڑے ہوئے، وہاں رضا ربانی کا یہ کہنا افسوسناک ’’وکیلوں کا اسپتال پر حملے کا جواز موجود تھا‘‘۔
لطیف کھوسہ کا یہ کہنا افسوسناک ’’کالے کوٹ پہناکر حکومت نے اپنے گماشتے، گلوبٹ اسپتال بھجوائے‘‘، علی احمد کرد کا یہ کہنا افسوسناک ’’وکلا سے زیادتی ہوئی، وکلاء سے زیادتی ہورہی‘‘، حامدخان کا یہ کہنا افسوسناک ’’اس واقعے کا مقصد وکلا کو بدنا م کرنا‘‘، یقین مانئے مجھے افسوس تو ہوامگر کوئی دکھ، تکلیف یا مایوسی نہیں کیونکہ مجھے ان سب سے یہی توقع تھی۔
ہاں ان سب خواتین وحضرات کو دکھ، تکلیف، مایوسی ضرور ہوئی ہوگی جنہوں نے ان سب کوخوامخواہ گلیمرائز کر رکھا، اب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس باقر نجفی کے ریمارکس، فرمایا، وکلا ء نے اسپتال پر حملے کی جرأت کیسے کی، وکلا نے جو کیاوہ جنگل کا قانون، وکلا نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، اس طرح تو جنگلوں میں بھی نہیں ہوتا، اس سب کی لاہور بار میں بیٹھ کر حملہ منصوبہ بندی ہوئی، وکلا کے پیشے میں کالی بھیڑیں، وکلا کو اندازہ نہیں،ہم کس دکھ میں مبتلا، کیا بارکارروائی کریگی۔
جب بار میں بیٹھ کر منصوبہ بندی ہوئی تو بار نے کیا کارروائی کرنی بلکہ کارروائی چھوڑیں، کوئی معذرت، پچھتاوا نہیں بلکہ الٹا حملہ آور وکلا سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بار نے ہڑتال کردی، مطلب ایک اسپتال پر حملہ، اوپر سے ہڑتال، یہی نہیں، اوپرسے وکلا فرمارہے،میڈیا یک طرفہ رپورٹنگ کررہا، میڈیا ٹھیک ہوجائے ورنہ میڈیا کا داخلہ بند کردیں گے۔
یعنی ڈاکٹروں کے بعداب میڈیا کو سیدھا کرنا،یہی نہیں، کراچی کے وکلا فرماچکے،اب ہم ڈاکٹروں کو اسپتالوں میں گھس کر ماریں گے، چشم بددور، بلاشبہ ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن دودھ کی دھلی نہیں، بلاشبہ یہ تنظیم بھی مافیا کی شکل اختیار کر چکی،بلاشبہ ڈاکٹروں کی ویڈیو بھی نامناسب، عین ممکن زیادتی ڈاکٹروں کی بھی،مگر اسپتال پر حملہ،یہ کس آئین،قانون میں لکھاہوا، وہ بھی وکلا کا حملہ، وہ وکلا جو عوام سے کہیں آئیے ہم آپ کو عدالتوں سے انصاف دلاتے ہیں، جب اپنی باری آئی تو عدالتوں پر عدم اعتماد بلکہ اپنی عدالت لگالی۔
یہاں حضرت علیؓ کا فرمان یاد آرہا ’’دولت، طاقت، اختیار ملنے کے بعد انسان بدلتا نہیں بےنقاب ہوجاتاہے‘‘، وکلا کو جب سے طاقت، اختیار ملا، تب سے قسط در قسط بے نقاب ہو رہے، اس بار نقاب پورا اُٹھ گیا، آخر میں یہ بھی سنتے جائیے، سانحہ پی آئی سی میں مرنے والوں کیلئے سائیں بزدار حکومت نے 10دس لاکھ دینے کا اعلان تو کیا مگر کسی بدنصیب کے جنازے میں نہ کوئی حکومتی بڑا،نہ وکیلوں کا بڑا اور نہ ڈاکٹروں کا بڑا، باقی لکھ کر رکھ لیں، یہ چند دن کا شور شرابہ، ڈاکٹروں، وکیلوں کی صلح ہوجائے گی،معاملہ ختم،جو مر گئے، وہ غریب، اس ملک میں غریب مرے یا جیئے، کسی کو کیا۔