بلاگ
Time 05 مارچ ، 2020

عمران خان کا غصہ

فائل فوٹو: وزیراعظم عمران خان

عمران خان کی حکومت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں مودی کی طرف سے کرفیو کے نفاذ کے بعد پاکستان میں بھارتی فلموں پر پابندی لگا دی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان خود ہی اپنی حکومت کی طرف سے لگائی گئی اس پابندی کی اکثر خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں اور صاف گو اتنے ہیں کہ بھرے مجمعے کو بتا دیتے ہیں کہ وہ اپنے گھر پر بھارتی فلمیں دیکھتے ہیں۔

پچھلے دنوں 27 فروری کو حکومت پاکستان نے یومِ عزم منایا کیونکہ اُس دن پاکستان ایئر فورس نے بھارتی ایئر فورس کا طیارہ مار گرایا تھا اور پیرا شوٹ سے چھلانگ لگانے والے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی کوششوں سے پاکستان نے بھارتی پائلٹ کو رہا کر دیا لیکن جواب میں بھارتی حکومت نے خیر سگالی کے بجائے 5 اگست 2019کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم کے پہاڑ توڑ دیے لہٰذا پاکستان نے 27 فروری کو یومِ عزم منا کر بھارت کو یاد دلایا کہ تمہارے ایک پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو ہم نے چائے پلا کر واپس بھیج دیا تھا لیکن ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھ لینا۔

یومِ عزم کی اس تقریب میں عمران خان نے بتایا کہ پچھلے دنوں انہوں نے ایک بھارتی فلم ’’پانی پت‘‘ دیکھی جس میں افغان حکمران احمد شاہ ابدالی کی کردار کشی کی گئی۔

عمران خان نے بتایا کہ پانی پت کی تیسری جنگ میں ابدالی نے مرہٹا فوج کو شکست دے دی تھی لیکن بھارتی فلم میں یہ دکھایا گیا کہ یہ جنگ مرہٹوں نے جیت لی۔

عمران خان کی تقریر سنتے ہوئے مجھے یہ اطمینان ہو گیا کہ نیٹ فلیکس پر یہ فلم دیکھ کر صرف میں نے بھارتی فلموں پر پابندی کو نہیں توڑا بلکہ وزیراعظم صاحب بھی پیچھے نہیں رہے۔ عمران خان نے کہا کہ اس بھارتی فلم میں تاریخ کو اتنا زیادہ مسخ کیا گیا کہ انہوں نے یہ فلم ہی بند کر دی۔

تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کیلئے یہ فلم آخر تک دیکھنا واقعی مشکل ہے کیونکہ اس فلم میں کہیں شاہ ولی اللّٰہ دہلوی کا ذکر نہیں جن کے بلاوے پر احمد شاہ ابدالی نے دہلی پر حملہ کیا تھا تاکہ مسلمانوں کو مرہٹوں کے ظلم سے بچایا جائے۔

اہم فلم میں مرہٹا فوج کے توپخانے کے کمانڈر ابراہیم خان گاردی کا کردار موجود ہے جس نے مرہٹا فوج کے ساتھ مل کر ابدالی کی افغان فوج کا مقابلہ کیا اور آخر میں ایک لاکھ مرہٹا فوجیوں کے ساتھ مارا گیا لیکن فلم میں اس کی موت میدانِ جنگ میں دکھائی گئی حالانکہ وہ میدانِ جنگ میں نہیں مرا تھا بلکہ اسے گرفتار کرکے ابدالی کے سامنے پیش کیا اور کہا گیا کہ اگر وہ افغان فوج میں شامل ہو جائے تو اسے معاف کر دیا جائے گا لیکن اس نے انکار کر دیا جس کے بعد وہ قتل کر دیا گیا۔

فلم ’’پانی پت‘‘ کا ڈائریکٹر ابراہیم خان گاردی کی مرہٹا فوج کے ساتھ وفاداری کو جان بوجھ کر چھپا گیا کیونکہ آج کل مودی کو خوش کرنے کیلئے مسلمانوں کو غدار کہا جاتا ہے لیکن اس فلم میں احمد شاہ ابدالی کو ایک ظالم، مکار اور سازشی انسان قرار دیکر ہمارے وزیراعظم عمران خان کو سخت ناراض کر دیا گیا۔

احمد شاہ ابدالی آج کے افغانستان کے بانی ہیں۔ 1761میں پانی پت کی تیسری جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد وہ واپس قندھار لوٹ گئے۔ اگر وہ آگے بڑھتے تو شاید ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان میں اپنے قدم جمانے کا موقع نہ ملتا۔ جب برطانوی فوج نے ہندوستان میں سازشیں شروع کیں تو میسور کے حکمران ٹیپو سلطان نے ابدالی کے بیٹے شاہ زمان سے رابطہ کیا۔

ٹیپو نے شاہ زمان اور فرانس کے حکمران نپولین کے ساتھ مل کر انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن انگریزوں نے شاہ زمان کے بھائی محمود خان کو استعمال کیا اور اس نے بھائی کے خلاف بغاوت کر دی یوں شاہ زمان اپنی حکومت بچانے کیلئے ہندوستان سے واپس چلا گیا۔

اگر محمود خان اپنے بھائی سے غداری نہ کرتا تو شاید انگریز اس خطے پر قبضہ نہ کر سکتے۔ بہرحال احمد شاہ ابدالی کو افغان اپنا بابائے قوم اور بہت سے پاکستانی اپنا محسن سمجھتے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ صحافی مختار حسن مرحوم نے تو اپنی کتاب ’’افغانستان‘‘ میں احمد شاہ ابدالی کو تحریکِ پاکستان کا قائدِ اول قرار دیا کیونکہ انہوں نے قلات کے حکمران میر نصیر خان نوری کے ساتھ مل کر پانی پت میں مرہٹوں کی کمر توڑی تھی لیکن کچھ لوگ ابدالی کے بارے میں وہی رائے رکھتے ہیں جو وہ افغان طالبان کے بارے میں رکھتے ہیں۔

اب واپس عمران خان کی طرف آتے ہیں۔ انکی تقریر میں فلم ’’پانی پت‘‘ کا ذکر آیا تو ہمارے ایک افغان دوست نے بھی فٹافٹ یہ فلم دیکھ ڈالی۔ اس فلم نے ان کے تن بدن میں آگ لگا دی اور انہوں نے اپنے صدر اشرف غنی کو پیغام بھیجا کہ اگر پاکستان کا وزیراعظم احمد شاہ ابدالی کی کردار کشی پر غصے کا اظہار کر سکتا ہے تو آپ کو بھی اس فلم کے خلاف ایک بیان دینا چاہئے۔

ہمارے اس افغان دوست سے کہا گیا کہ افغان حکومت ایک خط کے ذریعہ بھارتی حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر چکی ہے۔ ہمارے یہ دوست افغان حکومت میں اہم عہدے پر فائز ہیں۔

انہوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ جو اشرف غنی بابائے افغانستان کی عزت کے تحفظ کیلئے اپنی زبان نہیں کھول سکتا وہ افغانستان کا تحفظ کیسے کر سکتا ہے اس لئے آپ اپنے کالم کے ذریعہ اس بھارتی فلم کے خلاف افغان عوام کے جذبات پوری دنیا تک پہنچا دیں۔

میں نے اپنے اس محترم افغان دوست سے کہا کہ میں آپ کی فرمائش پوری کر دوں گا لیکن آپ ایسا کالم کسی افغان صحافی سے بھی لکھوائیں۔ اس دوست نے فوری طور پر کال کی اور بڑے پیار سے کہا کہ کچھ سال پہلے ایک بھارتی فلم ’’کابل ایکسپریس‘‘ میں افغانوں کی کردار کشی کی گئی تو آپ نے کالم لکھا تھا اسی لئے ’’پانی پت‘‘ کے خلاف کالم کی فرمائش بھی آپ سے کر رہے ہیں کیونکہ آپ کو ہم اپنا سمجھتے ہیں۔

میں اپنے افغان دوست کی فرمائش پوری کر رہا ہوں لیکن میری گزارش ہے کہ محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور احمد شاہ ابدالی کے نام پر تو پاکستان نے میزائل بنا دیے لیکن آپ بھی کبھی اس علامہ اقبال ؒکا ذکر کر دیا کریں جس نے کہا تھا:

افغان باقی، کہسار باقی، الحکم للّٰہ، الملک للّٰہ

افغان طالبان اور امریکہ میں امن معاہدے پر اشرف غنی نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ شاہ زمان کے بھائی محمود خان والا ہے۔

طالبان سے آپ کئی معاملات پر اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ انہوں نے ایک غیرملکی طاقت کے خلاف مزاحمت کی اور اسے شکست دی۔ اشرف غنی ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا ہے۔ پہلے اس کی طاقت امریکہ تھا اب وہ بھارت کی مدد سے امن معاہدہ سبوتاژ کرنا چاہتا ہے لہٰذا طالبان نے افغان فورسز پر دوبارہ حملوں کا اعلان کر دیا جس کے بعد صدر ٹرمپ نے طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کو فون کرکے ان سے تحمل اور برداشت کی اپیل کی۔

اس فون کال کے بعد کسی کو شک نہیں رہنا چاہئے کہ اشرف غنی کہاں کھڑا ہے؟ اشرف غنی کو ڈاکٹر نجیب اللّٰہ کے انجام سے سبق سیکھنا چاہئے جسے بھارت نے دھوکا دیا اور وہ کابل سے فرار بھی نہ ہو سکا۔

جس پاکستان میں احمد شاہ ابدالی کو عزت دی جاتی ہے اشرف غنی اس پاکستان سے نفرت کرتا ہے اور جس بھارت میں ابدالی کی کردار کشی ہوتی ہے وہ اس بھارت کا وفادار ہے، ابدالی کا دشمن افغانوں کا دوست کیسے ہو سکتا ہے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔