’قانون شہادت کے تحت فوجی افسرکے سامنے اعتراف کی کوئی حیثیت نہیں‘

ہائیکورٹ کو فیصلہ سنانے سے نہیں روک سکتے: جسٹس منیب اختر کا مبینہ دہشتگردوں کی رہائی کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کے جسٹس منیب اختر کا کہنا ہے کہ قانون شہادت کے تحت فوجی افسر کے سامنے اعتراف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 71 مبینہ دہشتگردوں کی رہائی کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے دائر اپیلوں پر سماعت ہوئی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 71 مقدمات ہیں تمام مقدمات میں الگ الگ الزامات ہیں، 2004 سے 2015 تک دہشتگردی میں ملوث ملزمان کے مقدمات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جو اصول طے شدہ تھے پشاور ہائیکورٹ نے ان پر عمل نہیں کیا، پشاور ہائیکورٹ پہلے ایک فیصلہ دے چکی تھی، اپنے فیصلے کو بھی پشاور ہائیکورٹ نے نظر انداز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرائل کے بعد 5 فیصد لوگ بری ہو گئے، زیادہ تر لوگ انکوائری کے دوران ہی بری کر دیئے گئے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا جرم تسلیم کرنے کے بیان کے علاوہ بھی کوئی ثبوت موجود ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کورٹ مارشل ہوتا ہے تو فوری طور پر سزا دی جاتی ہے، اگر ملزم اقرار جرم نہیں کرتا تو اس کے خلاف ٹرائل چلایا جاتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون بےشک آرمی کے حوالے سے ہیں لیکن عدالت کو بھی کافی حد تک معلوم ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ دوران تفتیش مجرم سے کئی سوالات کیے جاتے ہیں، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے  مطلب یہ کہ تمام مراحل میں مجرم کے جرم کو تسلیم کرنے کو ریکارڈ کیا جاتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا پھر اس پر مجرم کو سزا دی جاتی ہے؟ کیا فوجی عدالت میں موت کی سزا کے علاوہ عمر قید کی سزا دی جاتی ہے؟

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ تمام مجرموں کے نام، جرم کی نوعیت، ثبوت سمیت دیگر تفصیلات ایک چارٹ کی صورت میں پیش کریں۔

خصوصی لاء کے تحت جو ٹرائل ہوتے ہیں، کیا بینادی حقوق ان کی اجازت دیتے ہیں؟: جسٹس منیب

جسٹس منیب نے کہا کہ اگر حکومت فل ٹرائل چاہتی ہے تو کیا کوئی گواہ پیش ہوا ہے؟ حکومت عدالت کو ملزمان کے خلاف شواہد کے حوالے سے آگاہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ خصوصی لاء کے تحت جو ٹرائل ہوتے ہیں، کیا بینادی حقوق ان کی اجازت دیتے ہیں؟ فیئر ٹرائل کے لیے صرف آرٹیکل 10 اے محدود نہیں ہے، حکومت کا کیس یہ ہےکہ پشاور ہائیکورٹ نے آرٹیکل 10 اے پر انحصار کیا جو کہ درست نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وفاق کے مطابق آرٹیکل 10 اے ان مقدمات پر لاگو نہیں ہوتا، قانون شہادت کے تحت فوجی افسرکے سامنے اعتراف کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ملزم کا اعترافی بیان صرف مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہو سکتا ہے۔

پشاور ہائیکورٹ نے مفروضوں کی بنیاد پر فیصلہ دیا: ایڈیشنل اٹارنی جنرل

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا حراستی مرکز کا مجاز افسر عدالت میں اعترافی بیان لینے کا حلف دیتا ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ تمام اعترافی بیانات کی لکھائی ایک جیسی ہے، رولز میں جو فارمیٹ دیا گیا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا بیان اس کے مطابق ہی لکھا جاتا ہے، ہائیکورٹ نے یہ بھی کہا ٹرائل میں کوئی زخمی پیش ہوا نہ پوسٹ مارٹم رپورٹ، فوج کے کسی شہید کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا جاتا۔

ان کا کہنا تھا ہائیکورٹ نے اپیل میں استعمال ہونے والا اختیار آئینی درخواست میں کیا، فوجی عدالتوں میں ججز اور گواہان سب حلف لیتے ہیں، ہائیکورٹ نے ضابطہ فوجداری کو مدنظر رکھ کر فیصلہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے مفروضوں کی بنیاد پر فیصلہ دیا، دہشتگرد جنت کا ٹکٹ سمجھ کر اعتراف جرم کرتے ہیں۔

وکیل صفائی لائق سواتی نے کہا کہ میرے مؤکل کو جو وکیل دیا گیا وہ ڈمی تھا، میرے موکل جمشید علی کو 2012 میں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا، جمشید علی گرفتاری سے 15 دن پہلے سعودی عرب سے آیا تھا، دہشتگرد کو کھانا کھلانے کے الزام میں جمشید کو سزائے موت سنائی گئی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ فوجی عدالت کے فیصلوں کے خلاف 200 اپیلوں پر فیصلہ کل سنائے گی، عدالت عظمیٰ پشاور ہائیکورٹ کو کل فیصلہ سنانے سے روکے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہائیکورٹ کو فیصلہ سنانے سے نہیں روک سکتے۔ سپریم کورٹ نے ملزمان سے ریکوری کے حوالے سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے فوجی عدالتوں سے سزاؤں کے خلاف درخواست کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

مزید خبریں :