بلاگ
Time 22 مارچ ، 2020

موجودہ حالات اور آزاد میڈیا کی ضرورت

فوٹو: فائل

اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ’’جیو نیوز‘‘ چینل کو پہلے والے نمبروں پر بحال کرنے کے حکم سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ چینل کو کیبل پر بند کرنے یا آخری نمبروں پر دھکیلنے کا حکومتی فیصلہ درست نہ تھا۔

اگر عدالت جمہوری حکومت کے کسی بھی اقدام کو غلط قرار دے تو یہ بات جمہوری اور مہذب معاشروں میں جمہوری حکمرانوں کے لیے ندامت کا باعث ہوتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ اپنی حکومت کے اس اقدام کا اب بھی دفاع کر رہے ہیں۔

عدالت کے احکامات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جیو نیوز کو میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری سے پہلے والے نمبروں پر بحال کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے ایک شخص کے خلاف مقدمے کی آڑ میں ایک میڈیا گروپ کو دبانے کی کوشش کی اور خود یہ ثابت کر دیا کہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کا تعلق اس میڈیا ہائوس کی اس پالیسی سے ہے، جو حکومت کیلئے ناقابل برداشت ہے۔

پاکستان میں ویسے تو ہر دورِ حکومت میں میڈیا کو اپنا ہمنوا بنانے یا اسے دبانے کی کوشش کی گئی لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں صحافت، صحافتی اداروں اور صحافیوں کے لیے جس طرح ابتر حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ماضی میں بھی آزادیٔ صحافت پر قدغن لگائی گئی، سنسر شپ کے ذریعہ اطلاعات کی فراہمی کو روکا گیا۔

ٹی وی چینلز کو بند کیا گیا، آزادیٔ صحافت کیلئے جدوجہد کرنے والے صحافیوں اور کارکنوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ میڈیا ہائوسز، اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اشتہارات کی فراہمی بھی بند کی گئی لیکن ماضی میں میڈیا کو طاقت کے ذریعہ ڈکٹیٹ کرانے یا ہمنوا بنانے کا اتنا مربوط نظام وضع نہیں ہو سکا جتنا آج ہے اور نہ ہی صحافی اور صحافتی اداروں کے دیگر کارکن اس قدر بیروزگار اور بے بس ہوئے تھے، جس قدر آج ہیں۔

میر شکیل الرحمٰن کی نیب کے ذریعے گرفتاری کے حوالے سے حکومت کی تاویلوں پر بحث بالکل فضول ہے۔ پاکستان کا ایک ایک فرد اصل حقیقت سے واقف ہے۔ موجودہ حکومت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو مکمل طور پر ایک متنازع ادارہ بنا دیا ہے اور اس ادارے کی کارروائیوں اور کارکردگی کے بارے میں پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے ریمارکس سے دنیا کو پتا چل گیا ہے کہ موجودہ حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کے عزائم کیا ہیں۔

احتساب کے نام پر تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے ذریعہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور سیاست کو کمزور کیا گیا اور اب اگلا ہدف صحافت ہے۔ سیاست، فکر اور اظہارِ رائے کی آزادی کو کچلنے کیلئے احتساب کے ہتھیار کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

احتساب کا نظام جب بھی سیاسی مقاصد کے تابع کیا گیا، یہ نظام نہ صرف کمزور ہوا بلکہ اس پر عوام کا اعتبار بھی ختم ہو گیا۔ غیر جانبدارانہ، بلاامتیاز اور مداخلت سے پاک نظام احتساب کے بغیر نہ تو کوئی ریاست مضبوط ہو سکتی ہے اور نہ ہی آزادیوں کا تحفظ کرنیوالا حقیقی جمہوری معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔

یہ کبھی ممکن نہیں ہوا کہ سارا میڈیا حکومت وقت کا ہمنوا ہو اور مکمل ڈکٹیشن لے۔ آزاد میڈیا کسی حکومت کا دشمن یا مخالف نہیں ہوتا، وہ اختلافِ رائے یا تنقیدی آرا کے اظہار کا فورم ہوتا ہے۔ آزاد میڈیا کے ذریعے حکومتوں کو اپنی غلطیاں درست کرنے یا اصلاح کا موقع میسر آتا ہے۔ خاص طور پر جمہوری حکومتوں کو میڈیا کی آزادی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کیونکہ حکمرانوں کو دوبارہ عوام کے پاس جانا ہوتا ہے۔ 

میڈیا کو دبانے والے حکمران عوام کے جذبات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور بالآخر وہ عوام کے غیظ وغضب کا شکار ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے مؤثر ہونے کے بعد دنیا بھر کی حکومتوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو دبانے کے انتہائی خطرناک نتائج نکلتے ہیں۔ ایک طرف تو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی لوگوں کی نظروں میں ساکھ متاثر ہوتی ہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ میڈیا حکومت اور طاقتور حلقوں کے دبائو میں ہے اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر عوام کا غم و غصہ ڈِس انفارمیشن کی شکل میں حالات کو خطرناک رخ پر ڈال دیتا ہے۔

ایک طرف تو ملک میں معاشی سست روی کا پہلے ہی شدید بحران تھا۔ اس کے بعد کورونا وائرس کی عالمی وبا نے نہ صرف اس معاشی بحران کو سنگین تر بنا دیا ہے بلکہ ملک افراتفری اور انارکی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنی کارکردگی اور گورننس سے عوام کو مطمئن نہیں کر سکی اور اپنی مقبولیت کھو بیٹھی ہے۔

دوسری طرف وہ اپنے مخالفین اور اختلافِ رائے کو دبانے کی پالیسی پر اسی طرح عمل پیرا ہے۔ یا تو تحریک انصاف کی قیادت سیاسی تدبر سے محروم ہے یا پھر یہ اس کا اپنا ایجنڈا نہیں ہے، جس پر وہ مجبوراً عمل درآمد کر رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت نے اپنے خلاف حکومتی کارروائیوں کے باوجود حکومت پر تنقید ختم کر دی ہے اور آزمائش اور مشکل کی اس گھڑی میں اتحاد و یکجہتی کی بات کی ہے۔

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سیاسی لوگ ہیں اور ان میں سیاسی تدبر پایا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں میڈیا کی آزادی کو دبانے کی کوئی بھی کوشش عام حالات کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے، جس کا اندازہ حکمرانوں کو نہیں۔

حکومت کو ایسے وقت جن چیلنجز کا سامنا ہے اور ان سے نبرد آزما ہونے میں وہ عوام کی نظروں میں جس طرح ناکام تصور کی جا رہی ہے، اس صورتحال میں اسے اپنے بارے میں یہ تاثر ضرور ختم کرنا ہوگا کہ احتساب صرف ان لوگوں کا ہو رہا ہے، جنہیں حکومت اپنا سیاسی مخالف سمجھتی ہے یا جو اپنے میڈیا گروپ کو حکومت کا ہمنوا نہیں بنا رہے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔